کلبھوشن کیس سے جڑے چند غیر جذباتی سوالات


بین الاقوامی عدالت انصاف نے سترہ جولائی کو کلبھوشن کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کیس دونوں ممالک کے لئے سفارتی سطح پر اہمیت رکھتا ہے۔ قبل اس کے کہ کیس کا فیصلہ سنتے ہی طرفین میں جذباتی و سیاسی بحث میں حقائق چھپ جائیں، کیوں نہ اس پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ اس کیس سے چند سوالات اور ان پر دیے گئے جوابات کشید کیے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں۔

پہلا سوال یہ کہ کلبھوشن یادیو کون ہے۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق پاکستان نے یہ موقف اپنایا ہے کہ مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر ہیں اور بحیثیت را ایجنٹ پاکستان میں جاسوسی کے ساتھ ساتھ دہشتگرد کارروائیوں میں بھی ملوث رہے۔ پاکستان کے مطابق کلبھوشن نے باقاعدہ طور پر 2003 سے ایران کی سرزمین سے اپنے بھارتی پاسپورٹ کے ذریعے حسین مبارک پٹیل کے نام سے بلوچستان اور کراچی میں بطور تاجر آمدورفت جاری رکھی ہوئی تھی۔

پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند عناصر اس کا خصوصی ہدف تھے۔ حاجی بلوچ نامی شخص کی مدد سے پاکستان میں بہت سی دہشتگردی کی کارروائیاں بھی کیں۔ جن میں سے ایک صفورہ گوٹھ بس سانحہ بھی شامل ہے۔ کلبھوشن یادیو کو مارچ 2016 میں مشخیل سے کاؤنٹر انٹیلیجنس کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا۔ بھارت کے دفتر خارجہ کے مطابق کلبھوشن سابقہ نیوی افسر ہے جس نے قبل از وقت ریٹائرڈمنٹ لے لی تھی اور اس کا را یا بھارتی بحریہ سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارتی ذرائع یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ کلبھوشن کو ایران ہی کے سرباز شہر سے جیش العدل نامی تنظیم نے اغوا کرکے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے حوالے کیا۔

دوسرا سوال کلبھوشن یادیو کو سزائے قید کی بجائے سزائے موت کیوں دی گئی۔ حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ کلبھوشن کے اقبالی بیان کی ویڈیو کے مطابق کلبھوشن محض ایک جاسوس نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں اور سہولت کاری میں براہ راست ملوث تھا۔ بالخصوص بلوچستان میں علیحدگی پسندانہ کارروائیوں کو ہوا دی جس سے پاکستان کی علاقائی سالمیت کو شدید خطرات سے دوچار ہونا پڑا۔ یاد رہے بین الا قوامی سطح پر کسی بھی ملک کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانا ایک ناقابل معافی جرم ہے اور بین الاقوامی برادری اور تنظیمیں ہمیشہ اس بیانیے کے ساتھ کھڑی پائی جاتی ہے تاوقتیکہ کوئی ملک شدید نوعیت کے جنگی جرائم اور ٹھوس انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث نہ ہو۔ بھارت نے حسب توقع اس دعوی کو مسترد کردیا اور ویانا کنونشن برائے قونصلر تعلقات کے تحت کلبھوشن تک اپنے قونصلر کی رسائی کا مطالبہ کیا جسے پاکستان کی طرف سے مسترد کردیا گیا۔

تیسرا سوال اپریل 2017 میں کلبھوشن کی سزائے موت پر بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ بھارت نے اس کے لئے ویانا کنونشن برائے قونصلر تعلقات کا سہارا لیا ہے۔ بھارت کے بنیادی طور پر پانچ اعتراضات ہیں جو اس نے عالمی عدالت انصاف میں پیش کیے اور جس بنا پر مئی 2017 میں عالمی عدالت نے کلبھوشن کی سزائے موت پر اسٹے آرڈر بھی جاری کیا۔ عالمی عدالت انصاف کی پریس ریلیز کے مطابق پہلا اعتراض یہ ہے کہ پاکستان نے اس کیس میں ویانا کنونشن برائے قونصلر تعلقات 1963 کے آرٹیکل 36 کی تین صورتوں میں خلاف ورزی کی ہے۔

اول پاکستان نے بھارت کو کلبھوشن کی گرفتاری کی بروقت اطلاع نہیں دی۔ دوم پاکستان نے کلبھوشن کو اس کے بنیادی اور قانونی حقوق سے آگاہ نہیں کیا۔ سوم دوران قید پاکستان نے بھارتی قونصل افسر کو قانونی مدد کے لئے کلبھوشن سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کرنے دیا۔ دوسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ پاکستان کی ملٹری کورٹ نے ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 پیراگراف 1 (ب) کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کلبھوشن کے بنیادی حقوق کو پامال کیا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ بین الاقوامی معاہدہ برائے سول و سیاسی حقوق (ICCPR) کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔

تیسرا نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ اس ضمن میں ملٹری کورٹ کی طرف سے دی گئی سزا کو ختم کر دیا جائے۔ چوتھے نکتے میں زور دیا ہے کہ اس کے شہری کلبھوشن کو رہا کرکے بخیر و عافیت پہنچانے کا اہتمام کیا جائے جبکہ آخری نکتے میں بھارت نے ملٹری کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزا پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے موقف دیا ہے کہ اگر سزا ختم کرنا عالمی عدالت کے لئے ممکن نہیں تو کلبھوشن کیس کو پاکستان کی سویلین عدلیہ میں لے جایا جائے۔

اگرچہ پاکستان نے ان اعتراضات کو رد کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنا دو ٹوک موقف بھی دیا ہے کہ کلبھوشن یادیو پر ویانا کنونشن کی شق 36 اور دیگر قوانین اس لئے بھی لاگو نہیں ہوتے کہ کلبھوشن نے خود کو ملٹری کورٹ میں پیش ہونے سے قبل ہی دہشت گرد اور مجرم تسلیم کیا ہے۔ اس کے ساتھ عام غیرملکی شہری والا سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا۔

بھارت نے کلبھوشن تک قونصلر کی رسائی نہ ہونے کو بنیادی نکتہ اعتراض بنایا ہے۔ دوران بحث اس کیس کا اہم ترین نکتہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ بھارت نے پاکستانی ملٹری کورٹ کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ بھارت شاید اس بات کو جان بوجھ کر نظرانداز کررہا ہے کہ کلبھوشن یادیو کا کیس ایک روایتی کورٹ مارشل کے تحت نہیں بلکہ بائیسویں ترمیم کے آئینی مینڈیٹ سے بننے والی فوجی عدالت میں دائر ہوا۔ اور چونکہ پاکستانی موقف کے مطابق کلبھوشن ایک حاضر سروس بحری کمانڈر ہے اور جاسوسی سے بڑھ کر دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کا کیس فوجی عدالت میں لے جایا گیا۔

اپنی چار روزہ بحث میں بھارتی وکیل کا تمام تر زور فوجی عدالتی نظام پر ہی رہا۔ اپنے دلائل میں انہوں یہ بھی کہا کہ محض پاسپورٹ اور اقبالی ویڈیو پر کیسے سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ جس کے جواب میں پاکستانی وکیل نے مزید ایک ویڈیو پیغام بھی پیش کیا جس میں کلبھوشن نے اقبال جرم دہرایا۔ ایک موقع پر بھارتی وکیل سالوے نے فوجی عدالتوں کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھی دعوی کیا کہ فوجی عدالتوں کی نوعیت کے برخلاف پشاور ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔

اس کے جواب میں پاکستان کی طرف سے انور منصور خان نے جواب دیا کہ ایسا کوئی کیس زیر سماعت نہیں۔ اور فوجی عدالتوں کا طے شدہ طریقہ کار کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ علاوہ ازیں دونوں اطراف کے وکلا نے روایتی گلے شکوے اور اضافی دلائل کا سہارا بھی لیا جیسا کہ سالوے نے نواز شریف کے بیان کو دلیل بنایا جبکہ انور منصور خان نے سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ کی یاد تازہ کی۔ کشمیر کا ذکر بھی چلا۔

پانچواں اور آخری سوال یہ ہے کہ اگر عالمی عدالت انصاف کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اس کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف چونکہ اقوام متحدہ کے چھے بنیادی ارکان میں سے ایک ادارہ ہے اس لئے اس کے فیصلوں کو زبردست سفارتی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کی سماعت کا انحصار عالمی معاہدات کی تشریحات ہیں قطع نظر اس کے کہ کسی پارٹی کے ملکی قوانین جو مرضی ہوں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 93 کے مطابق اس کا فیصلہ فریقین پر لازم لاگو ہوتا ہے۔ عدم تعاون کی صورت میں معاملہ شق 94 کے تحت سکیورٹی کونسل میں اٹھایا جاسکتا ہے جو اس پر عملدرآمد کرانے کا اختیار رکھتی ہے۔ بادی النظر میں فریقین اپنے تئیں اس کیس کو جیتنے میں پراعتماد ہیں۔ تاہم امید ہے کہ عالمی عدالت انصاف واضح اور اطمینان بخش فیصلہ کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).