مذہب کارڈ اور انجان عوام


آج 6 جولائی کے ایک پاکستانی معاصر روزنامہ کی شہ سرخی یوں ہے : برطانیہ، مدینہ فلاحی ریاست کی نقل۔ چین نے ان اصولوں پر عمل کرکے دس کروڑ عوام کو غربت سے نکالا۔ مدینہ آج کی ماڈرن سٹیٹ تھی، عمران خان۔

کیا آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ریاست کا وہ تصور تھا جو آج ہے۔ اس سے بھی بہت پہلے یونان کے ایک جزیرے کے باسیوں نے ریاست کا تصور ضرور پیش کیا تھا اور اس پر عمل درآمد بھی کیا تھا مگر اس میں بھی شہریوں میں آزاد اور غلام اور مرد و عورت میں تخصیص کی جاتی تھی۔

البتہ حکومتوں کا تصور اور ان کی اشکال بہت پرانی ہیں جن میں بادشاہت سب سے پیش پیش تھی اور خلافت ایک نیا تصور مگر وہ بھی برقرار رکھا جانا ممکن نہ ہوا یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فلسطین میں حکام پر پتھر پھینکنے پڑے تھے کیوں کہ انہوں نے ریشم پہنا ہوا تھا۔

پھر ریاست کا موجودہ تصور اپنے تین ستونوں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے بغیر ناقص تصور کیا جاتا ہے۔ جس دور کی بات کی جا رہی ہے اس دور میں یہ بہت ابتدائی اور یکسر غیر جمہوری شکل میں موجود تھے۔ چلیے مان لیا کہ مدینہ نام کی کوئی ریاست تھی مگر بتائیے کہ کیا تب کوئی ٓئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور پیرس کلب وجود رکھتے تھے؟ کیا صنعت آج کی شکل میں موجود تھی؟ کیا بین الاقوامی تعلقات اور معاملات آج جیسے تھے؟

آج کوئی بھی ریاست اپنے طور پر فعال نہیں رہ سکتی ماسوائے شمالی کوریا جیسی مطلق العنان ریاست کے۔ آج دنیا کی تمام ریاستیں کم و بیش کسی نہ کسی طرح آپس میں مربوط ہیں۔ اگر کوئی ایسی ریاست بنانی ہے جو اپنی شکل میں انتہائی قدیم، اپنے عمل میں آج کے حوالے سے فرسودہ اور اپنی ہئیت میں بے ڈھنگ ہو تو آپ بنا لیجیے مگر مدینہ کا نام لینے کی کیا ضرورت ہے؟

آخر یہ بار بار ”ریاست مدینہ“ کا نام کیوں لینا پڑ رہا ہے؟ بلا شبہ ریاست کے نقص ڈھانپنے کی خاطر مذہب کارڈ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ مذہب کارڈ خاص طور پر نام نہاد اسلامی ملکوں میں ہی زیادہ برتا جاتا ہے جیسے سعودی عرب، ترکی، ایران اور پاکستان۔ عیسائی اکثریتی آبادی والے ان ملکوں میں مذہب کارڈ برتا جائے گا جہاں تہذیب و تمدن کا فقدان ہو جیسے انڈونیشیا میں تیمر میں برتا گیا یا سوڈان میں عیسائی آبادی والا ملک بنائے جانے کی خاطر، وہ بھی تب جب مذہب کے نام پر ماراماری زیادہ ہونے لگی۔ اسی طرح اس کارڈ کو اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کے خلاف جذبات بھڑکانے کی خاطر کرتی ہے۔

آج کا بیان تو خیر انتہا ہے کہ برطانیہ کو نامعلوم کون سی ریاست مدینہ کی نقل قرار دے ڈالا۔ برطانیہ کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجیے اس نے اسلام سے کبھی استفادہ نہیں کیا۔ کیا تو اپنے ملک سے باہر کیا جب مارگریٹ تھیچر نعرہ تکبیر کہتی تھیں اور سٹیج سے نیچے بیٹھے نام نہاد افغان مجاہدین اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ مارگریٹ تھیچر کے ساتھ پاکستان کا غیر آئینی حاکم جنرل ضیاء ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

اب جب ضیاء اور عمران کی آدھی آدھی تصویر ملا کے سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی ہے تو پرانے زمانے کے روشن خیال میرے دوست ریٹائرڈ پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر علی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان دونوں میں کیا مماثل ہے۔ دیکھ لیا ڈاکٹر صاحب ان دونوں میں مذہب کارڈ کا استعمال کیا جانا مماثل ہے اور انصاف کی آڑ میں منتقم مزاجی بھی۔ آپ کی نظر میں ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کیا جانا انصاف ہی ہوگا نا؟

چین کی ریاست جو خالصتاً سیکیولر ریاست ہے اس پر بھی ہمارے جید ماہر سیاسیات و سماجیات وزیراعظم نے الزام لگا دیا کہ اس ملک نے بھی کسی ان جانی ریاست مدینہ کے اصولوں پر عمل کرکے دس کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ اب پاکستان کے بیچارے انجان عوام کو کیا معلوم کہ چین کے دیہاتوں سے کارخانوں میں مزدوری کرنے کی خاطر پہنچے ہوئے کروڑں کسانوں کا نہ شہروں میں کوئی پرسان حال ہے نہ دیہاتوں میں ان کے لواحقین پورے پیٹ بھرے ہیں۔

ہمارے ملک کے معصوم و انجان عوام کو مذہب کے نام پر بیوقوف بنائے جانے کا یہ نہ پہلا موقع ہے اور لگتا ہے نہ آخری مگر دکھ اس بات کا ہے کہ بیچارے عوام جس سے بھی بہتری کی امید کرتے ہیں وہ انہیں مذہب کے نام پر احمق بنانے پر لگ جاتا ہے۔

ضیاء سے کوئی اتنا گلہ نہیں کیونکہ وہ اس ادارے سے تھا جس نے کئی بار ملک کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور ہر بار مزید کمزور اور کھوکھلا کر کے سیاستدانوں کو بخشا وہ بھی عارضی طور پر مگر عمران خان جو خود کو سیاستدان سمجھتے ہیں، ایسا کرتے ہوئے ان میں اور ضیاء میں ایک تو کوئی فرق باقی نہیں رہتا دوسرے وہ اپنے ساتھ تمام سیاستدانوں کی مٹی پلید کرانے میں جٹے ہوئے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).