عظیم دیوارِچین اور اچھے برے ہمسائے


\"khurram\”جو دیوارِ چین پر نہیں پہنچا، وہ ہیرو نہیں ہو سکتا\”۔ ہماری گائیڈ نے ہمیں ماؤزے تنگ کی نظم میں سے ایک مصرعے کا ترجمہ سنایا۔ دیوارِ چین کی اونچائی کی جانب نگاہ دوڑائی اپنی بگڑی عادات و اطوار کے باعث اپنے آپ کا جائزہ لیا اور شعوری اور لاشعوری طور پر تجزیہ کرنے کی کوشش کی کہ شاید ہمیں ہیرو پنتھی سے باز ہی رہنا چاہئیے مگر خون نے جوش مارا اور ہم نے کمر کس لی۔ میرے ہمراہ ایک پاکستانی دوست اور ایک ہندوستانی دوست بہی تھا۔ سندیپ سے ملاقات راستے میں ہوئی۔ وہ بیک وقت دورِ حاضر کے تین انسانی المیوں کا شکار تھا۔ نسلاً کشمیری اور ھندوستانی مقبوضہ کشمیر کے پونچھ کا رھنے والا تھا، پنجاب میں امرتسر منتقل ہوا اور سکھ ہونے کے باعث دوسرا المیہ دیکھا اور اب تلاشِ رزق میں آسڑیلیا میں مقیم ہے۔ یہ غریب الوطنی تیسرا المیہ ہے۔

ہماری چائنیز گائیڈ جو کہ اپنے پیشے کی موزونیت کے حساب سے کافی چرب زبان واقع ہوئی تھی ہم پہ دیوارِ چین کے متعلق اپنی غیر مصدقہ معلومات جھاڑیں۔

یہ واقعی انتہائی مشکل تھا سیڑھیوں کی اونچائی حد سے زیادہ ہونے کے باعث گھٹنے پسلیوں تک اٹھانے پڑتے۔ جوں جوں بلندی کی طرف جارہے تھے گرمی، حبس اور ہوا کے دباؤ میں کمی کے باعث چلنا دوبھر ہو رہا تھا۔

بلندی کی طرف سفر ایک مشکل کام ہے نامساعد حالات، ناموافق موسم، ناگوار بُو (جو کہ زیادہ تر چائنیز سے مخصوص مسالوں کے استعمال\"IMG_453\" کے باعث یوں بہی آتی ہے لیکن اس پہ طُرہ جب پسینے میں شرابور ہوں) ناہموار سیڑہیاں، سہارے کے لئے لگائے جانے والے پائپ کی ضرورت سے زیادہ نیچے تنصیب، ناہنجار چائنیز جو تیزی سے اوپر کی طرف جارہے ہوں اور گویا آپ کا منہ چڑھا رہے ہوں\’ ان سب کے امتزاج نے دو دفعہ میرے ارادے کو متزلزل کیا لیکن پائے استقلال میں لغزش نہ آنے دی۔

میں نے دہیان بٹانے کے لئے  سُندیپ سے گپ شپ شروع کر دی۔ سندیپ نے اپنے آسڑیلیا میں قیام، تعلیم اور شادی کے متعلق بتایا اور بتایا کہ کیسے ایک پاکستانی نے اس کی پروموشن کروائی اور اس کی زندگی آسان ہوئی۔

سندیپ بُول رھا تھا \’ آپاں باھر ہوئیے تے اِک ہی ہونے آں ساہنوں موت انڈیا پاکستان آکے ہی پیندی آ۔ (جب ہم ملک سے باھر ہوتے ہیں تو ایک ہی ہوتے ہمیں موت انڈیا پاکستان آکر ہی پڑتی ہے)

مجھے دور دیوارِ چین کی چوکی دکھائی دے رہی تھی۔

ہمارے ساتھ دو لڑکیاں نیدر لیںنڈ سے تھیں\’ دو ماں بیٹیاں جن کا تعلق اسپین کے علاقے Catalan سے جو اسپین سے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں اور دو رشین میاں بیوی تھے اور دیگر روسی دوست تھے۔\"IMG_4534\"

ہم سب ایک کائناتی قصبےمیں دوست اور ہمسایوں جیسے جذبات لئے ہوئے تھے۔ Catalan کیوں اسپین سے آزادی چاھتا ہے اور کشمیری کیوں بھارت کے ساتھ مطمئن نہیں \’ سکھ خالصتان کیوں چاھتے ہیں اور بلوچوں کو کیا مسئلہ درپیش ہے۔ سب کچھ زیرِ بحث آیا اور کوئی بغض، عناد یا پہلے سے طے شدہ نظریات ہمیں گفتگو سے روک نہیں پائے۔

دیوارِ چین کی پہلی چوکی پہ پہنچ کر کچھ سکھ کا سانس لیا۔

میں سندیپ سے پنجابی بول کر بہت لطف اُٹھا رھا تھا ۔ کیونکہ کئی دنوں سے میں چین میں مقیم تھا اور انگریزی کو آسان فہم اور چین فہم انداز میں بولنے کی مشقت سے سخت تنگ آچکا تھا۔ مزید برآں یہ کہ baidu نامی ایک سرچ انجن کی ترجمہ کی سہولت سے فائدہ اُٹھا اُٹھا کر سخت نالاں تھا ۔شکر کیا تھا کہ پنجابی بولنے کی عیاشی میسر آئی تھی ۔

دوسری چوکی تک پہنچتے پہنچتے ہمت قریباً جواب دے گئی۔

ہماری دوست جو اسپین کے علاقے Catalan کی شہری تھی نے میری کاروباری ناپ تول اور قیمتوں کے تعین و بحث و مباحثہ کی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کے لئیے کسی مہارت کی ضرورت نہیں بس اتنا ادراک کافی ہے کہ ہمارے پٹھان ہم وطن اور چائینیز کاروباری معاملات میں ایک جیسے ہیں۔

جب ہم ساری دن کی تھکان کے بعد کھانے کی میز پر پہنچے تو خوب گپ شب ہوئی۔ مِنگ خاندان کے ریاستی فیصلوں سے لے کر دیوار چین کی تعمیر اور اس کے نتائج تک۔

دیوارِ چین ایک انسانی معجزہ ہے جو چالیس بادشاہوں کے دورِ حکومت میں زیرِ تعمیر رھا ۔ جبری مشقت، ان گنت انسانی جانوں اور جذبوں \"IMG_4536\"کی قربانی کے بعد مشکل ترین پہاڑی سلسلے میں منگولوں کے حملوں سے بچنے کے کے لئے  بنائی جانے والی 6700 کلومیٹر لمبی دیوار بہی چینیوں کو منگولوں سے بچا نہ پائی کیونکہ بے چین اور ظلم سے تنگ چینیوں نے غدار بننا پسند کیا۔ میرے لئیے بہت بڑا سبق تھا۔ ہم پوری کور اور ایف سی لگا کر لوگوں کو دبا تو سکتے ہیں لیکن جب تک ان کی دل نہ جیت لیں اور فکری تبدیلی نہ لائیں سب بے کار ہے۔ بھلا دیوارِ چین سے بڑی دفاعی لکیر کیا ہو گی؟

کھانے کی میز پر مجھ سے ہماری اسپین کی دوست (جو کہ ایک نیورالوجسٹ neurologist  تھی) نے پوچھا کہ تم لوگ کون سی زبان بول رہے ہو۔

میں نے بتایا کہ یہ ایک علاقائی زبان پنجابی ہے۔ اس پہ پھر سوال کیا تواس کا مطلب ہے تم دونوں (میں اور سندیپ) ایک ہی ملک اور علاقے کہ رھنے والے ہو؟ تو میں نے مسکرا کر پہاڑی سلسلے کی طرف نظر دوڑائی۔ چشمِ تصور میں عظیم ہمالیہ\’ ایک سو تیس کروڑ اور بیس کروڑ کی آبادی کو لایا۔ ان کی لنگی، شلوار قمیضیں، دیہات اور شھر گھوم گئے۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا۔

\”      نہیں، ہم بُرے ہمسائے ہیں\”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments