تیسری جنس ہونے کی اذیت سہتی ایک ہستی کی کہانی


ماں کے لفظ، دنیا کی نظر میں ادھورے مگردھتکارے ہوئے بنی کی آس، امید اور زندگی ہیں۔ بنی کو چمپا بائی کے حوالے کرنے کے بعد، ماں اپنے گھر کے ہر فرد سے چھپا کراسے خط لکھتی ہے۔ ایک بار جب ماں کے خط کے طویل انتظار کے بعد، اس کی طرف سے بھیجے گئے بڑے سائز کے لفافے میں ماں کی مختصر تحریر دیکھتا ہے تودل مسوس کر لکھتا ہے :

”خط کھول کر تکلیف ہوئی، اتنے بڑے لفافہ میں اتنی مختصر سی تحریر۔ تیرے ہاتھ میں درد تھا با؟ موٹا بھائی اور سیجل بھابھی کے گھر لوٹنے کا وقت ہو گیا تھا؟ “
ایک اور خط میں درد کی اس گپھا میں خود کوڈھونڈتے، ادھورے مگر بے تحاشا محبت کرنے والے بنی نے ماں کولکھا :

” نالا سوپارا کے سمندر سے تیری دوستی یاری ہے کیا؟
میرے آنسوؤں میں پہلے اتنا کھارا پن نہیں تھا با۔
رک با! میں ذرا اپنا رومال ڈھونڈ لاؤں۔ ”

ایک کے بعد ایک خط پڑھتی جاتی ہوں اوراپنا حوصلہ آزماتی جاتی ہوں۔ ان خطوط کو جمع کر کے دستاویز کیا ناول ہمارے فرسودہ معاشرے کی ایک سفاک اوربے درد حقیقت کا آئینہ بن گیا۔ اب اس آئینے میں خود کو تکئے۔ بیٹھے کالک ملا منہ دیکھئے۔

با کا بڑا بیٹامکمل مردانہ اعضا رکھنے والا مرد ہے۔ جب اس کی بیوی امید سے ہوتی ہے تو وہ جنسی عضو سے محروم بھائی کی تصویر گھر کی ایک دیوار پر آویزاں دیکھ کر ماں پر بھڑک اٹھتا ہے۔ ماں ایک خط میں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ اس موضوع پر ہونے والی بحث کے جملے دوہرا کر بنی کولکھتی ہے :

”با! اپنے کمرہ میں تم نے بِنّی کی تصویر کیوں ٹانگ رکھی ہے؟ سیجل کی نگاہ اس پر پڑتی نہیں ہوگی؟ کبھی سوچا ہے تم نے کہ اس کے دل ودماغ پر کیا اثر پڑتا ہو گا؟ تم بھلے کبھی اس کالی پرچھائیں کا نام اپنی زبان پر نہیں لاتیں لیکن یہ جو ہر تیوہار پر بلا وجہ تمہاری آنکھیں بھر بھر آتی ہیں کیا یہ اسے زبردستی اس گھر میں کھینچ نہیں لاتیں؟ “
میں آپا کھو بیٹھی تھی۔

تو جاہلوں جیسی کیا باتیں کر رہا ہے؟ میرے پیٹ سے جنم لینے والے کو تو کالی پرچھائیں کہہ رہا ہے؟ تو بھی تو اسی کوکھ سے جنما ہے، منجل بھی اسی کوکھ سے جنما ہے۔ کیا بگاڑا ہے اس نے ہمارا؟ قدرت نے اس کے ساتھ جو نا انصافی کی اس میں اس معصوم کا کیا قصور؟ اگر وہ تیری اولاd ہو کر پیدا ہوتا اور تو اسے گھر سے باہر نکالنے کی بے بسی جھیلتا تو بول تجھے کیسا محسوس ہوتا؟

”۔ “ دنیا میں آنے سے پہلے ہی میں اسے رخصت کر دیتا
بڑے بھائی کا زہر میں بجھا ہوا جواب ماں کو آٹھ آٹھ آنسو رلاتا ہے۔ خون کے رِشتے ہی جب اس طرح بدل جائیں تو؟ درد کی بلکتی صورت میں بنی جواباً لکھتا ہے :
تو نے میرے پیدا ہوتے ہی انسان کے اس تیسرے روپ کو دیکھ لیا تھا نا با؟ ”
اسی وقت مجھے ختم کر دینا چاہیے تھا، تو کس موہ میں پڑ گئی تھی با؟ بول۔ ”

ہر جملہ زخمی ہے۔ ہر لفظ کی آنکھ نم ہے۔ ہر سطر سے آنسو بہتا ہوا، ہر بات تیزدھار خنجر کی طرح کلیجہ کاٹتی ہوئی اورمیرے ضبط کا پیمانہ چھلکتا جاتا ہے۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے میں، اس پسماندہ اور آوٴٹ ڈیٹڈ سماج کے لکھے، زندگی کی اس دشا پہ ضبط کے بند باندھنے والے سارے مہارت ساز لفظوں کو کسی اندھے کنویں میں پھینک کر جلا ڈالنا چاہتی ہوں۔ ہے کوئی ایسا طریقہ جس کے ذریعے یہ ایک فیصد کے بنائے خودکش نظام کولامحدود اختیارات بخشنے والے، مصنوعی غیرت کی آن بانشان کو قائم رکھنے والے اورعام انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر پاوٴں تلے روندنے والے مشرقی سماجی ضابطوں کی پوٹلی بنا کر دریا برد کر دی جائے؟ دوستو! یہ کس نے طے کیا کہ جس انسان کے جسم پر چار چھ اِنچ کا اضافی ٹکڑا نہیں لگا ہو یا آدھی ناشپاتی نہیں چپکی ہو، وہ انسان نہیں ہوتا؟ اسے عام انسانوں، اپنے پیاروں کے ساتھ رہنے کا کوئی حق نہیں؟ بنی کے لفظوں میں چھپی اذیت کو محسوس کرنے کی کوشش تو کریں۔

” کبھی کبھی میں چمگادڑوں سے پر عجیب سی اندھیری سرنگ میں خود کو گھٹتا ہوا محسوس کرتا ہوں، اس حبس زدہ ماحول سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پیر مارتا ہوا انسان تو ہوں نا! اگر میرے اندر کچھ نقص ہے تو اس کی اتنی بڑی سزا؟

ایسی دل گرفتہ حالت میں میری آنکھوں سے کھارا پانی نہیں خون رسنے لگتا ہے با، گالوں اور گردن پر کتھئی لکیریں گہری نہروں کی طرح کھد جاتی ہیں۔ جو نہ کبھی سوکھتی ہیں نہ خالی ہوتی ہیں۔ جب انہیں اوپری سطح پر خود کو ظاہر کرنا ہوتا ہے تبھی نظر آتی ہیں، یہ احساس دلانے کے لئے کہ اپنے کتھئی گیلے پن کو میری انگلیاں چھو سکیں۔ اور جب نظر نہیں آنا ہوتا ہے تو معدوم ہو کر میرے جسم کے ادھورے حصے میں جا کر جم جاتی ہیں۔ ایسی برف کی طرح جو اندھیر ا پی کر کالی ہو گئی ہو۔

یہ کھیل خود میری سمجھ سے پرے ہے
یہ کون سا جادو ہے با!
حیرت میں ہوں۔
سب نے مجھ سے منہ موڑ لیا
خوابوں نے منہ نہیں پھیرا۔ ”

اِنفرادیت اور ریشنل سوچ کے دُشمن یہ گلے سڑے اصول، ہر طورجبر کے نظام کو چلانے کے لئے بنائے بوسیدہ، بدبودار گھناوٴنے نیئم، جہاں کہیں ماوٴں کو زبردستی اپنے جگر گوشے گھروں سے نکال باہر کرنا پڑتے ہیں تو کہیں باپوں کو اپنی زندہ اولادوں کے مرنے کی خبر پھیلانا پڑتی ہے۔ جھوٹی آن کی مجبوری اور ذلت سے گندھے نظام میں جہاں کمزور پر ظلم ضابطہ بن جائے وہاں کوئی کتنی دیر لڑسکتاہے؟ مایوسی اور دکھ کے زندانوں سے ایسے تاریک خیال ہی جنم لیتے ہیں :

” اچاٹ من، اہانت کے احساس سے لبریز، فطرت کے مذاق کے نام پراذیت برداشت کرنے کی قوت نہیں بچی، کب تک لڑے کوئی اپنے سے۔ اپنوں سے۔
پپا کی خواہش پوری نہ کر دی جائے؟
قصہ ہی ختم!
کہاں مروں؟ مروں تو کیسے مروں؟
کیسے پیدا ہونا ہے اس کا اختیار تو مجھے نہیں تھا لیکن موت چن سکتا ہوں۔

شہر میں مروں گا تو لاش کنروں کے ہاتھ لگے گی، ان کے رسم و رواج کے مطابق نپٹارہ ہوگا، کنر کے روپ میں میں مرنا نہیں چاہتا، اپنی مرضی سے مر سکتا ہوں تو لاش کا نپٹارہ بھی میری مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ بلند و بالا پہاڑ پر جا کر مرنا مناسب ہوگا، ہزاروں فٹ گہری ناقابل عبور گھاٹی میں کون میری لاش تلاش کرے گا؟ لاش کے ٹکڑوں سے لپٹ کر تجھے بھی چھاتی کوٹنے کا موقع نہیں ملے گا۔ میں یہی چاہتا بھی ہوں۔ تجھے اندیشہ میرے خطوط نہ پہنچنے سے ہی ہوگا۔

جب پوسٹ باکس نمبر 203 نالا سوپارا سے تو مسلسل خالی ہاتھ لوٹے گی۔ اتنی ہمت تو خیر تجھ میں ہے نہیں کہ میرے ایڈریس پر کسی کو بھیج کر میرے بارے میں دریافت کرے، تجھے ایسا کرنا ہوتا تو بہت پہلے کر چکی ہوتی۔ ایسی بات نہیں ہے با کہ تجھ میں ہمت نہیں ہے، عورتیں اپنی ہمت کا ستعمال ہی نہیں کرتی ہیں۔ ان کی اپنی آنکھیں نہیں ہوتیں، وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں حلقوں سے نکال کر شوہر اور بیٹوں کی جیبوں میں سرکا دیتی ہیں ”۔

ٹھیک ہی تو لکھا ہے بنی نے۔ ہم جو دنیا کی نظر میں کسی جنسی عضو کی کمی کا شکار نہیں، ہم بھی بھلا اپنی زندگیاں کہاں جیتے ہیں؟ رکھت رکھا ہے ہمارا جیون بھی سماج کے پاس۔ کیسے ہنسنا۔ کیسے جینا، کیا پہننا، کیا اوڑھنا، کیسے چلنا، کس سے کتنے تعلقات رکھنے ہیں، کس سے نہیں۔ کس مذہب سے محبت، کس دھرم سے نفرت کرنی ہے سب معاشرے نے طے کر رکھا ہے۔ ۔ ۔ اس مہاجن سماج کے پاس رہن رکھی ہیں ہماری خوشیاں جو سود کا حساب کتاب دینے کے لئے تیار ہی نہیں، اور قرض ہے کہ بڑھتا جاتا ہے۔

مگروہ جو معاشرے کی نظر میں جسمانی طور پر نہ مکمل مرد ہیں نہ مکمل عورت، جن کو سماج نے ایک تہمت بنا رکھا ہے، ان کی اذیتوں کی تو کوئی حد بھی مقررنہیں کی ہے اس جابر معاشرے نے۔ لفظوں کی سفاکی کے چابک مارتے لوگوں کے لئے یہ لوگ کھسرے، کھدڑے، کنر، مخنث یا ہیجڑے ہیں۔ ۔ ۔ چلتی پھرتی بددعا ہیں، گالی ہیں۔ وہ جن کے وجود پر گوشت کا ہر ٹکڑا درست جگہ پرچپکا ہوا ہے ان کے لیے مزے لینے والی گالیاں اورجن کے وجود کا اڑھائی تین چار تولہ گوشت اِدھر اُدھرغلط جگہ پر لگ گیا۔ ان کے لیے کوڑے۔ ۔ ۔ رُوح پہ برسنے والے تارا میرا میں بھیگے کوڑے۔

بنی کا خیال رکھنے والی پونم کی بھی اپنی ہی کہانی ہے۔ ۔ ۔ اس کے نچلے دھڑ پے آدھی ناشپاتی نہیں لگی سو وہ بھی سماج کی دھتکاری ہے مگر اس کے لئے بنی سلمان خان ہے اور جو اس کی پڑھائی کے لئے پورے آٹھ ہزار روپیہ جوڑتی ہے۔ یہ جینے کے آزار سے نمٹنے کی ایک کوشش ہے، بچگانہ کوشش۔ مگر اس انتہائی قابل قدر کوشش کے نتیجے میں درجہ (ب) میں رول نمبر اٹھارہ کا شاگرد جسے باپ دنیا کی نظر میں مار چکا، ماں کو بنتی لکھ بھیجتا ہے :

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4