تیسری جنس ہونے کی اذیت سہتی ایک ہستی کی کہانی


یہ ناول پڑھتے پڑھتے میرا گمان پختہ ہو گیا ہے کہ میری جڑیں ابھی تک وہیں اسی دھرتی میں پیوست ہیں، جہاں کا قصہٴ درد مجھ تک پہنچا ہے۔ یہاں توگویامیں اپنی جڑوں سے دور، اپنے وجود کے پیڑ کو اپنی ہتھیلی پر دھرے بیٹھی ہوں۔ شاید اسی لئے مجھے ایسا لگتا ہے گویا ”با“ کا دیکرا مجھ سے دور نہیں ہے۔ میرے ساتھ اس کا کسی نہ کسی جنم میں، کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور رہا ہو گا، اسی لئے اس کا لکھا لفظ لفظ میرے دل نے خود پر لکھ لیا ہے۔ دنیا کی سب سے با کمال، سب سے زیادہ محبت کرنے والی ”با“ کے دیکرے!

تو نے ہر لفظ کے آخر میں احتراماً لکھا ہے ”تیرا دیکرا“

تو وقت کی چالیں اورہوشیار لوگوں کی سازشیں دیکھ دیکھ کر کتنا سیانا ہو چکا ہے، مگر ترے اندر تلخی نہیں گھلی۔ کیسی پوتر ہے تری روح اور کیسا پیارا ہے تیرا لہجہ۔ تو تو اپنے دل میں موٹا بھائی کے لئے بھی پیار ہی پیاررکھتا ہے جنہیں خدا معلوم کیوں تجھ سے اتنا بیر ہو گیا کہ گھر میں لگیتیری تصویر تک اتروا دی۔ میرا دل چاہ رہا ہے تجھ سے ملنے آوٴں۔ تیری ”با“ کے پیر چھووٴں۔ اور تجھے گلے لگا کر کہوں ”میرابہادر دیکرا“۔

تو نے دیکھا نہ، بوڑھی ہوتے ہوتے، دکھ سہتے سہتے، تجھے تسلیاں دیتے دیتے، سماج کے اندھے، بہرے اورظالمانہ رویوں سے لڑتے لڑتے تیری ”با“ کیسی مضبوط ہو گئی کہاپنے حوصلے سے صدیوں پرانے دستور کو ایک جھٹکے سے ڈھا بیٹھی۔ اور دیکھ دنیا کی ساری مائیں تیری ”با“ جیسی حوصلہ مند ہو جائیں تو کیا پھر بھی تیرے جیسے محبت سے بھرے دیکرے کو کوئی چمپا بائی اپنی ماں سے چھین کر لے جا سکتی ہے؟ اورکھسرے، کنر، مخنث، خسرے، کھدڑے، ہیجڑے، بیچ والے۔

کہاں کہاں سے آئے ہیں یہ، جیسے بدصورت الفاظ کہہ کر کوئی انہیں تالیاں پیٹنے، بھونڈی حرکتیں کرنے، آنکھوں میں بھر بھر کاجل اور ہونٹوں پہ بیہودہ لالی لگانے پر مجبور کرسکتا ہے بھلا؟ معاملہ یہ ہے کہ سنجیدگی اور دردمندی سے ہمارے ملکوں کے کرتا دھرتاوٴں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دلچسپی ہی نہیں لی۔ یہ سارا معاملہ ماوٴں اوران کے دیکروں کا تھا۔ جن کے بیچ میں زبردستی گھس کر، گھناوٴنی سازشیں رچا کے، سماج کے ان ظالم ٹھیکیداروں نے یہ نرک بنا دیا۔

کیسا اچھا کیا تو نے کہ اس معاشرے کواس کا اصل چہرہ دکھا نے کے لئے سب کچھ لکھ دیا۔ سمجھا دیا سب کو۔ بتا دیا کہ کیا ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ یہ سب کیسے ٹھیک ہو گا۔ دیکھ، سب تیرے لکھے لفظ پڑھ کرقوانین بنا رہے ہیں۔ انصاف کی باتیں کر رہے ہیں۔ اپنی غلطی کو تسلیم کر رہے ہیں۔ تیرے لفظ آنے والے زمانوں میں تیرے جیسے مکمل خوبصورت انسانوں کو مکمل دنیا دلائیں گے۔ تو نے لکھا ہے :

” میری ہمیشہ خواہش رہی کہ عضو تناسل میں نقص والاشخص قدرت کی جانب سے ملے اس جہنم کوعذاب نہ سمجھ کر اس سے نجات کا راستہ تلاش کرے، اپنے طرز حیات پر تدبر و تفکر کرے، سماج اس کے لئے نجات کے راستے نہیں تلاش کرے گا۔ اکیسویں صدی میں جیتے ہوئے جو سماج صدیوں پرانے اندھ وشواس کوگلے سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے اور آج بھی اسے جھٹکنے کے لئے راضی نہیں ہے۔

سماج کی ذہنیت تبدیل کرنی ہو گی۔
لیکن بدلے گی کیسے؟ کوئی متبادل ہے؟ کسی کو پہل کرنی ہو گی۔
کسی سرپرست کو پکار لگانی ہو گی با۔
بوسیدہ و فرسودہ روایتوں کو پھاڑ کر پھینک دینا ہو گا۔ جلا دینا ہو گا۔ بھسم کر دینا ہو گا۔

دلیری اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، محض حوصلہ سے کام چلنے والا نہیں۔ جنسی عضو میں نقص والی اولاد سے معافی مانگتے ہوئے۔
عوامی سطح پراعلان کرتے ہوئے۔
میرے بیٹے!
میری بیٹی!
جہاں بھی ہو، جیسے بھی ہو، اپنے گھر لوٹ آؤ، گھر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔

ہم اپنی غیر انسانی حرکت کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے بچے کی گھر واپسی چاہتے ہیں۔
با! یقین ہے کہ ان کی پکار رائیگاں نہیں جائے گی۔
ان کی گستاخی دوسروں کے لئے حوصلہ بن جائے گی۔

ریزرویشن انہیں تیسرے خانہ میں بندکردے گا۔
تیسرے خانہ میں کیوں؟
تیسرے خانہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اس کھیل کو جنسی عضو سے محروم افراد سمجھ نہیں پا رہے ہیں، سمجھ بھی نہیں پائیں گے۔

سرکار کو ریزرویشن دینا ہی ہے تو انہیں دو خانوں کے اندردے جن دو خانوں کے اندر سبھی جنم لینے والے انسانوں کو ملتا ہے۔ انہیں چننے کی سہولت دے، جس خانہ کو وہ خود کے لئے منتخب کرنا چاہیں یا جو ہونا چاہیں۔
عورت یا مرد۔ خاموشی سے۔ ”

دیکھ بنی، جیت تیری ہے مگر یہاں مجھے حق دے کہ میں تجھ سے تھوڑا سا اختلاف کروں۔ یوروپیئن اقوام کی جارحانہ یلغار سے پہلے مظاہر فطرت سے رہنمائی اور زبان کائنات سے کلام کرنے والے امریکہ اور نارتھ امریکہ کے اوریجنل مگر اب ایبوریجنل کہلائے جانے والے انڈین باشندوں کے پاس تو ”تھرڈ جینڈر“ کو ”ڈبل سپرٹ“ کہہ کر مرد اور عورت سے زیادہ مان سمان دیا جاتا تھا۔ اس ضمن میں ایک ریسرچ ابھی حال ہی میں سامنے آئی ہے کہ دراصل دنیا میں، آج تک کی تحقیق کے مطابق تریسٹھ جینڈرز ہیں۔ اوراببہت سے یوروپیئن، امریکن اور نارتھ امریکن ملکوں نے صرف تیسرا نہیں بلکہ بہت سارے خانے بنا دیے ہیں کہ تم جس خانے میں مناسب سمجھو خود کو شامل کر لو۔ پہلے ایل جی بی ٹی تک محدود تھے۔ ابھی حال ہی میں ایل جی بی ٹی کے ساتھ قیو، آئی، اے بھی شامل کر دیا ہے تو سارا بنا۔ ۔ ۔

lesbian, gay, bisexual, transgender, queer or questioning, intersex, and asexual or allied

ہے نہ بڑی بات؟ سیکھ رہے ہیں نہ یہ ملک؟ ننو کے بجائے دماغ استعمال کرنے لگے ہیں نہ؟ تو ہمارے لوگ کب تک نہیں سوچیں گے کہ مختلف ہونا عیب نہیں ہے۔ مجھے یاد آ رہا ہے کسی شاعر نے کسی مظلوم باکے دیکرے یا دیکری کے دکھ کو ان لفظوں میں زبان دی تھی:

”میرے باپ کے پانچ بچے تھے
دو لڑکے، دو لڑکیاں
اور ایک میں ”

ہندوستان میں اس ”ایک میں“ کو ستائیس دسمبر کو ”با“ کی ساری زندگی کی قربانی اور وصیت نے نام دے دیا ہے۔ کیسی کیسی مشکل گھڑیاں دیکھیں تم دونوں نے۔ ۔ ۔ ساری عمر لگا دی ”با“ نے تجھے شناخت دینے میں۔ اور تو اور، تو خود اپنا پورا نام لکھنے کو ترس گیا۔ کبھی اپنی پہچان کے لئے عرف بنی لکھا تو کبھی عرف بملی اوربہت ساری بے نام عرفیتیں سوچتا رہا ہو گا مگرمجھے ایسا لگتا ہے کہ اب کسی ”ونود شاہ“ کو شناخت کے ایسے ہولناک بحران سے نہیں گزرنا پڑے گا۔

تو نے ایک خط میں با کو لکھا تھا نہ کہ ”جانتا ہوں با! ترے ناسور پہ ناخن رگڑ رہا ہوں۔ “ پر سچ پوچھ تو، تو نے ہماری پست سوچ کے ناسوروں پہ ناخن رگڑنے کے لیے یہ سب لکھا۔ دیکھ تیرے ناخن کی رگڑ فرسودہ رسموں کی صدیوں پرانی کہنہ عمارت کو ہلا سکتی ہے۔ گرا سکتی ہے۔ مسجود کرسکتی ہے۔ مگر بنی، ستائیس دسمبر کے اخبار میں ایک دوسری بھی بہت پریشان کن خبر ہے۔ دل دہلا دینے والی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ روشنی اور امید کا سورج موت کی سی تاریکی سے ہی کیوں طلوع ہوتا ہے؟ ایسا ہوتا تو آیا ہے پر جی نہیں مانتا۔
تو ٹھیک تو ہے نہ با کے دیکرے۔ ۔ ۔ میرے دیکرے؟

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4