مقبوضہ کشمیر اور انسانی حقوق کی پامالی


دنیا میں مقبوضہ کشمیرکا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ پر عالمی دنیا کے حکمرانوں کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی سمیت خود بھارت کی اپنی ریاست کا رویہ کافی شرمناک ہے۔ مسئلہ محض پاکستان کا نہیں بلکہ عالمی دنیا سے جڑے انسانی حقوق کے ادارے تسلسل کے ساتھ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاکر عالمی دنیا کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔ لیکن عالمی دنیا کی بے حسی یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر بھارت کے سامنے خاموش ہے۔ بھارت کی پالیسی کے تحت وہاں انسانی حقوق کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے آزاد میڈیا، انسانی حقوق کے نمائندوں، بیرونی سفارت کاروں پر پابندی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے اب بہت سے معاملات پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں رہا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چند برس قبل مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے یورپی یونین کے وفد کی تہلکہ خیز رپورٹ ”کشمیر دنیا کا خوبصورت ترین قید خانہ“ کے نام سے منظر عام پر آئی تھی۔ اس سے قبل ایک برس قبل 2018 میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کی 49 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بھی بھارتی مظالم کی واضح لفظوں میں نشاندہی کی تھی۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ پر عالمی دنیا کے میڈیا میں کافی شور اٹھا اور بھارت پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرے۔ اب ایک بار پھر انسانی حقوق کی بین الا اقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے جس میں بھارت کے ظالمانہ مرکزی قوانین او ران کے بے جا استعمال کے نتیجے میں ہونے والے روح فرسا واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 40 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بغیر الزام یا مقدمہ کے مشتبہ شخص کو دوبرس تک گرفتار رکھنے کا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ بھارتی اور عالمی انصاف کی خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ وادی میں گذشتہ تیس برس میں اس قانون کے تحت ہزاروں افراد کو نظر بند رکھا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھار ت کے سربراہ آکار پٹیل کے مطابق یہ قانون بھارتی او رعالمی انسانی حقوق کے قانون کے خلاف او رمقبوضہ وادی میں حکام اور شہریوں کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ ہے۔

اس رپورٹ میں 2012۔ 18 تک 210 قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ستر فیصد مقدمات میں قیدیوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے او رایک جیسے الزامات کی بنیاد پر انہیں فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے مقامی پولیس عدالتی کارروائی کی حامی نہیں کیونکہ اس طرح انہیں قیدی سے متعلق ٹھوس ثبوت دینا پڑتے ہیں۔

یورپی یونین، اقوام متحدہ اور اب ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مقبوضہ کشمیر پر انسانی حقوق سے متعلق رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ بھار ت کا سیاسی مقدمہ مقبوضہ کشمیر میں کافی کمزور بھی ہے او رشرمناک بھی۔ بھارت بنیادی طور پر اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے جہاں کشمیر یوں کو مختلف مصائب کا سامنا ہے وہیں خود بھارت میں داخلی سطح پر بھی ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں جو بھارت کی جارحانہ کارروائیوں پر مزاحمت کررہی ہیں۔

بالخصوص بھار ت میں شہری علاقوں کی نوجوان نسل جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں تعلیمی اداروں اور سماجی سطح پر بھارتی مظالم پر آوازیں اٹھارہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نوجوانوں نے مختلف یونیورسٹیوں میں مختلف ڈرامے او رخاکے پیش کرکے لوگوں میں اس شعور کو اجاگر کیا ہے کہ بھارتی حکومت کا رویہ انسانی حقوق کے حوالے سے ظلم پر مبنی ہے۔ بھارت کی ریاست یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ یہ جو نوجوان نسل ہے جو سوشل میڈیا میں زیادہ بالادست نظر آتی ہے وہ کافی متحرک اور فعال ہے اور بھارتی مظالم پر خاموشی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بھارت میں مختلف شاعر، ادیب او ردانشور سمیت صحافی اور سماجی کارکن بھی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر اپنی اپنی سطح پر بھار ت کو باور کروارہے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنی طاقت کی پالیسی کو ختم کرکے سیاست او رمفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔

اسی طرح عالمی میڈیا او رانسانی حقوق سے جڑے اداروں کو بھی داد دینی ہوگی کہ جن لوگوں نے نامساعد حالات کے باوجود مقبوصہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کیا ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد عملی طور پر وہاں بھارت کے خلاف مزاحمتی تحریک نوجوانوں کے کنٹرول میں ہے۔ کشمیری بزرگ قیادت اب یہ بات برملا کہتی ہے کہ نوجوان اب زیادہ فعال ہیں اور ہماری مفاہمتی سیاست کے خلاف ایک بڑے مزاحمت کو ہی وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں۔

کیونکہ جب ان کی اپنی نظروں کے سامنے کشمیری نوجوانوں، بچوں، بچیوں، عورتوں اور بزرگوں کی تذلیل کی جاتی ہے او ران پر مختلف طریقوں سے ظلم او رتشد دکیا جاتا ہے تو اس کا ردعمل کا آنا فطری امر ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وادی میں موجود فاروق عبداللہ، عمر فاروق عبداللہ او رمحبوبہ مفتی نے بھی نریندر مودی کی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی کے حالات کو باریک بینی سے سمجھنے کی کوشش کریں اور یہاں طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔

اصولی طور پر تو بھارت کی سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وہاں کے لوگوں سے مکالمہ کا آغاز کریں او ریہ سمجھیں کہ بات چیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حل ہی مسئلہ کا حل بن سکتے ہیں۔ کیونکہ طاقت کے استعمال سے وادی میں تحریک کمزور یا ختم نہیں بلکہ اس میں اور زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے۔ اس تحریک کو ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا بلکہ خود بھارت کو اپنی جارحانہ پالیسی کو بدلنے سے ہی جڑا ہوا ہے۔

دوسری جانب عالمی دنیا کے حکمرانوں کو بھی ان عالمی رپورٹس کی مدد سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ کیونکہ عالمی حکمران طبقہ کے بارے میں بھی مقبوضہ کشمیر او ربالخصوص وہاں کی نوجوان نسل میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہورہا۔ ان نوجوانوں کو لگتا ہے کہ عالمی دنیا مقبوضہ کشمیر کے بارے میں سیاست کا شکار ہے اور اس کی بھارت کے بارے میں مسلسل خاموشی اس کی مجرمانہ سیاست ہی کا حصہ ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی دنیا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے دکھ درد او رمظالم کی اہمیت کو سمجھے او ران کے ساتھ کھڑے ہوکر یہ ثابت کرے کہ وہ ظالم کی بجائے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اؤ آئی سی کے اجلاس میں بھی کشمیر کی حمایت میں قرارداد اور مشترکہ اعلامیہ میں کچھ باتیں سامنے آئی ہیں۔ لیکن یہ بات محض قرار داد تک محدود نہیں رہنی چاہیے اور ان کو مقبوضہ کشمیر پر زیادہ شدت سے بات کرنی چاہیے اور بھارت پر زور دینا ہوگا کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کرے۔ اسی طرح پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی جناب فخر امام کو دی ہوئی ہے۔ فخر امام پاکستان کے منجھے ہوئے او رسلجھے ہوئے سیاست دان ہیں او ران کی نیک نامی بھی بہت خوب ہے۔

یہ ان کی فرض بنتا ہے کہ وہ ایک فعال حیثیت میں کشمیر کمیٹی کے فورم سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر پارلیمنٹ سمیت مختلف سیاسی، سماجی، قانونی فورم پر اپنی آواز میں شدت پیدا کریں اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ صوبائی فورم بھی بنا کر بات کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ فخر امام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانوں کو بھی اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر ان کو متحرک اور فعال کریں اور ان کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ اس مسئلہ کی اہمیت کو عالمی سطح پر بھی اجاگر کریں تاکہ کشمیریوں کو یہ احساس ہو کہ پاکستان سیاسی اور سفارتی محاذ پر ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ فخر امام کو چاہیے کہ وہ قومی اور صوبائی سطح پر کانفرنسز کا انعقاد کریں او ر اس آواز میں شدت پیدا کریں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بند کرے۔

پاکستان کا کردار اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ہمیں کشمیریوں میں اس احساس کو پیدا نہیں ہونے دینا کہ ہم ان کے ساتھ نہیں کھڑے کیونکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ اب ایک ایسی نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں اس کے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ مسئلہ کسی سیاسی تنہائی میں نہیں حل ہوگا بلکہ ہمیں پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور وہاں کے مقامی لوگوں کو طاقت کی بنیاد پر کچلا جارہا ہے۔ اس سوچ او رفکر کی بنیا دپر ہی ہم کشمیر کے مسئلہ کا سیاسی او رپرامن حل تلاش کرسکتے ہیں جو سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).