سید جلال محمود شاہ نے ”حیدر منزل“ کس وجہ سے بیچی؟


اس بات پر تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ پاکستان بننے کے لئے جو سب سے زیادہ مضبوط آئینی دستاویزات اور دلیل تھے ان میں سب سے پہلے سندھ اسمبلی سے پاکستان بننے کے حق میں پاس کی گئی قرارداد اور مسلم لیگ کی جانب سے 1940 ع میں پاس کی گئی قرارداد تھی۔ پاکستان کے قائم ہونے کے اسباب اس وقت بھی سینکڑوں تھے اور وقت اب بھی جواز فراہم کرتا جارہا ہے۔ مگر سچائی کے آئینے میں بغیر آئینی اور قانونی تاریخ کے باقی سب تقاریر اور واقعات مانے جائیں گے۔

تاریخ جب بھی پاکستان کے حق میں سندھ اسمبلی کی پاس کردہ قرارداد کو یاد کرے گی تو اس کو ذکر سائیں جی ایم سید کے ذکر کے سوا نہ شروع ہوسکے گا نہ ہی مکمل۔ پاکستان میں شامل تمام اکائیوں کی اپنی اپنی خوبصورتیاں اور سچائیاں ہیں۔ سندھ میں سائیں جی ایم سید کے وہ واحد قومی رہنما ہیں جو مسلم لیگ کے ساتھ تھا تو بھی پوری سندھ کو ہیرو تھا اور جب مسلم لیگ کو چھوڑ کر اس کے بالکل مخالف ہوکر کھڑا ہوگیا تو بھی سندھ کے باسیوں نے اسے اکیلا نہیں چھوڑا۔

پاکستان بننے سے لے کر اب تک سب سے زیادہ قید رہنے کا رکارڈ بھی ان کے پاس ہے، ہر دور کے حکمران چاہتے ہوئے بھی اس کو قید سے آزاد نہیں کرسکتے۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق کے لئے تو مشہور تھا کہ وہ جب بھی ان کو گرفتار کرنے کے لئے پولیس بھیجتا تھا تو پہلے ہی فون کرکے کہتا تھا کہ ”سائیں وڈا، آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے، اس لئے جسارت کر کے پولیس کو آپ کے گھر“ حیدر منزل ”بھیج رہا ہوں، اگر مناسب سمجھیں تو آپ خود گھر سے نکل جائیں، یا کم سے کم اپنے ڈنگے بچوں (جذباتی کارکنوں ) کو حیدر منزل سے نکال دیجئے۔

سائیں جی ایم سید کبھی نہیں بھاگے نہ کبھی چھپے وہ تاریخ کے واحد قیدی تھے جنہوں نے ہمیشہ خود کہا کہ مجھے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور میرا موقف سنا جائے، اور فیصلہ کرنے والے اس لئے فیصلہ نہیں کرتے تھے جی ایم سید کے باتوں کو عدالتی تاریخ کا حصہ بننے نہیں دیا جائے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ وہ انتہائی ضعیف العمری میں بھی اپنے کراچی والے گھر ”حیدر منزل“ میں مسلسل نظر بند رہے۔

سندھ کے مختلف شہروں اور گاؤں سے کسی بھی کام سے کراچی آنے والے نوجوان صاحل سمندر، کیاماڑی، بولٹن مارکیٹ اور اردو بازار کا چکر لگانے سے پہلے ”حیدر منزل“ کا درشن کرنے ضرور آتے تھے۔ حیدر منزل سے عام نوجوانوں کی بھی وہ ہے انسیت تھی اور ہے جو شاہ بھٹائی، سچل سرمست اور شاہ بہارو کی دربار یا سن شہر سے ہوتی ہے۔

”حیدر منزل“ کراچی کے سولجر بازار والے علاقہ مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی میں نشتر پارک کے بالکل سامنے ایک ڈیڑھ کنال پر قائم سفید رنگ کی ایک عام سی دومنزلہ عمارت ہے، جس میں نہ تو کوئی قیمتی ریشم کے قالیں، بیش بہا پردے اور شاہی قسم کا فرنیچر موجود ہے اور نہ ہی شیش محل جیسی چھت کوئی قیمتی پتھروں سے مزین محرابیں اور طاق ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ وہ باہر کی طرح اندر سے بھی مناسب اور پروقار عمارت ہے اور چونکہ سائیں جی ایم سید کی سیاسی اور ادبی تاریخ اس عمارت سے وابستہ رہی، پاکستان کے تمام بڑے قومی سیاستدان اسی عمارت میں آکر مہمان بنے جن میں خود قائداعظم محمدجناح سمیت، مولان ابوالکلام آزاد، شیخ مجیب الرحمٰن، میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، خان عبدالغفار خان، ولی خان، عبدالصمد اچکزئی سمیت کئی لوگ شامل تھے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں کتابوں میں ہزاروں بار اس عمارت کا ذکر رہا اور رہے گا۔

سائیں جی ایم سید کے انتقال کے بعد ان کی بنائی ”جیئے سندھ محاذ“ کئی حصوں میں بٹ گئی، ہزاروں نوجواں اس تحریک کو الوداع کر کے پارلیمانی سیاسی پارٹیوں میں کھپ گئے تو کچھ نے اپنی نئیں پارٹیاں بنالیں، کچھ سائیں جی ایم سید کے عدم تشدد والے فلسفے پر رہے تو کچھ پرتشدد کارروائیوں میں مصروف ہوگئے۔ زیادہ تر تو سیاست سے ہی کنارہ کش ہوگئے اور جاکر صحافت، تحقیق اور سماجی بھلائی کے کاموں میں لگ گئے۔ سب کے راستے اور منزلیں علحدہ علحدہ ہوگئیں مگر جو چیز سب کے لئے ایک رہی وہ ”حیدر منزل“ تھی۔

سائین جی ایم سید کے انتقال کے بعد ان کی جائداد ان کے دو بیٹوں سید امیر حیدر شاہ اور سید امداد محمد شاہ میں تقسیم ہوئی، اور اب وہ جائداد پھر ان کے پوتوں میں تقسیم ہورہی ہے، جب اس جائداد کی تقسیم در تقسیم کا موقعہ آیا تو کچھ کو زمین، کچھ کو سن شہر کی جائداد ملی اسی طرح سے صرف اک ”حیدر منزل“ سید جلال محمود شاہ کے حصے میں آئی۔ سید جلال محمود شاہ شروع سے ہی قومپرست سیاست سے کنارہ کش رہے اور انہوں نے ملک میں پارلیمانی سیاست کا آغاز کرتے ”سندھ یونائیٹیڈ پارٹی“ کا بنیاد ڈالا۔ اسی طرح کئی قومپرست مزاج لوگوں کے لئے پارلیمانی سیاست کے لئے آسانی پیدا کردیں۔

سید جلال محمود شاہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے واحد مرکزی رہنما ہیں جو اپنے دفتر میں آنے والے لوگوں کی روٹی پانی سے لے کر اپنی الیکشن مہم تک تمام خرچہ اپنی جیب سے کرتے ہیں۔ اتنے سارے اخراجات چلانے کے لئے ان کے پاس وسائل کتنے ہیں یہ بات ان کے قریب رہنے والے کارکن بھی نہیں جانتے۔ مگر گھر والے اور اک دو دوست حضرات ضرور جانتے ہیں کہ سید جلال محمود شاہ کے اپنے گھر، بچوں کی تعلیم، صحت، دفتر، پارٹی اور دیگر اخراجات چلانے کے لئے کتنے لوگوں سے کتنی بار کتنا قرضہ لے چکے ہیں۔

زندگی کے اس دور میں جب ان کے بالوں اور چہرے کی جھریوں میں ڈھلتی جوانی کے اثرات اور گہرے ہوتے جارہے ہیں اور بچے جوان ہوچکے ہیں اب اپنے بچوں سے زیادہ اپنے قرض خواہوں کی فکر ہے۔ سندھ اسمبلی میں اسپیکر رہنے والے سید جلال محمود شاہ اس وقت بھی کراچی میں اک کرائے کے گھر میں رہتے ہیں، اور یقیناً اس کے پاس بچوں کے لئے کسی اچھے علاقے میں اپنا ذاتی گھر خریدنے کے لئے سرمایہ بھی موجود نہیں۔

اس صورتحال میں سید جلال محمود شاہ کے پاس کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں کہ وہ کراچی میں موجود اپنے دادا سائین جی ایم سید کی آخری نشانی ”حیدر منزل“ بیچ کر آدہے رقم سے اپنا قرضہ اتار کر سکون سے رہیں اور باقی رقم سے اپنے بچوں کے لئے نیا گھر جو بھلے چھوٹا ہو خرید لے۔

حیدر منزل سے سندھ کے عوام کی دلی وابستگی کے سبب وہ تین سال تک ایسا نہیں کرسکے، اور قرضہ بڑھتا گیا۔ اب جاکر ایسا ہوا کہ انہوں نے حیدر منزل کو بیچ دیا۔ حیدر منزل فروخت ہو جانے کی خبر سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گئی، صرف ایک دن کے اندر لاکھوں لوگوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا، کئی لوگ تو ”حیدر منزل“ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے اس کا محاصرہ کرنے یا پھر چندہ کر کے بلڈر سے دوبارہ خریدنے کا پروگرام بناتے رہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بلڈر نے اک رات کے اندر ”حیدر منزل“ کو مسمار کر دیا۔ سندھ کے قومپرست حلقے اور سوشل میڈیا پر جیسے سوگ چھا گیا۔

سائین جی ایم سید کے پوتے سید جلال محمود شاہ کے خلاف اک احتجاج چل نکلا، تو دوسری طرف لوگ ان کے حق میں بیان بازی بھی کرتے رہے۔ وہ لوگ جو نہ کبھی جی ایم سید کے ساتھ رہے نہ ہی اس کی سیاسی سوچ سے متفق رہے وہ بھی اس بات پر پریشان تھے کہ ”حیدر منزل“ کو کیسے بچایا جائے۔

یقیناً اس ساری صورتحال میں سید گھرانے نے اپنا نہ تو کوئی بیان دیا نہ کسی بیان پر ردعمل دیا، ہر طرف خاموشی چھائی رہی، سوائے اس کے کہ حیدر منزل ہماری ذاتی عمارت تھی جو ہم نے بیچ دی۔ ذرائع کے مطابق سید جلال محمود شاہ نے ”حیدر منزل“ فروخت کرنے سے پہلے تمام رشتیداروں اور احباب کے سامنے اپنا کیس رکھا کہ ”اتنا قرضہ اتارنے اور نیا گھر خریدنے کے لئے اتنی رقم چاہیے، کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی رقم مجھے سے مل سکے، یا کوئی رشتیدار چاہے تو مجھ سے اسی رقم میں حیدر منزل خرید لے، جب ہر طرف سے جواب نہ میں آیا تو انہوں نے یہ مشکل کام کیا اور اک بلڈر کو حیدر منزل فروخت کردی۔

جوانی میں قومپرست شاگرد تحریک کے عہدیدار اور اس وقت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے اہم شخصیت کا کہنا ہے کہ ”حیدر منزل سے جذباتی وابستگی رکھنے والوں کو زمینی حقائق پیش نظر رکھنے چاہیے، ویسے بھی“ حیدر منزل کوئی منزل تھوڑی ہے، وہ تو سنگ میل ہے، ہمیں اس کو کراس کر کے آگے بڑہنا چاہیے۔ ”سید خاندان کا سندھ سے ایمانداری، شرافت، سندھ پرستی اور اس سے الستی عشق کا رشتہ ہے۔ اس رشتے نے ہی پورے سندھ کو محبت کے اک دھاگے میں پرویا ہوا ہے۔ اس وقت یہ خاندان جس معاشی صورتحال کو منہ دے رہا ہے اس کا ادراک سب لوگوں کو ہونا چاہیے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).