تعبیری خواب اور حقیقی خواب


ہر انسان خواب دیکھتا ہے۔ کبھی سوتے ہوئے اور کبھی جاگتے ہوئے۔ کچھ لوگ رات کو سوتے میں خواب دیکھ کرصبح ان کی تعبیر دھونڈتے ہیں اور تاویلات کے ذریعے ان کے اپنے زندگی پر اثرات دیکھتے ہیں اور کچھ لوگ جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے اپنی زندگی کا تن من دھن اس کو حاصل کرنے کی کوشش میں گذار دیتے ہیں اور دنیا میں اپنا نا م چھوڑجاتے ہیں۔ تھامس ایڈورڈ لارنس کے مطابق تمام لوگ خواب دیکھتے ہیں لیکن برابر نہیں ہیں۔ جو لوگ رات کے خواب میں اپنے دماغوں میں ان کے بارے میں سوچتے ہیں یہ ان کے ذہنوں کی یاد دلاتے ہیں، یہ جانتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں ہیں، لیکن دن کے خواب دیکھنے والے خطرناک ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی جاگتی آنکھوں سے ان کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے روایتی معاشرہ بھی انہی دونوں قسم کے خواب دیکھنے والوں میں تقسیم ہے کچھ لوگ رات کو خواب دیکھ کرصبح بھول جاتے ہیں یا ان کو تاویلات کے ذریعے اپنی زندگی پر اس کے اثرات دھونڈنا شروع ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ خواب دیکھ کر ان کو حقیقت کا روپ دینا شروع ہو جاتے ہیں چاہے وہ کسی شاعر کی شاعری ہو یا کسی لکھاری کا الفاظوں میں ڈھالا ہو ادبی شاہکار ہو یا پھر ان خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے اور اس کے حصول کے لئے اپنی زندگی کی بازی لگا نے والافردہو۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر تم نے کوئی خواب دیکھا ہے جس کو تم نہیں چھوڑ سکتے تو اپنے اس خواب کو حاصل کرنے کے لئے جت جاؤ، لیکن یاد رکھو خوابوں کی تعبیر اپنی کوشش سے حاصل کرنا آسان نہیں اس کے لئے صبر چاہیے ہوتا ہے، اس کے لئے عزم کا وہ مقام چاہیے ہوتا ہے کہ انسان کو بار بار گر کر او ر ہار کر اٹھنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر انسان کی نیستی کا عالم اُسے کُن فیکُن کا نظارہ دیکھاتاہے اور باقی انسانوں سے الگ خاص مقام حاصل کرتاہے۔

تاریخ انسانی ایسے انسانوں سے بھر پڑی ہے جنہوں نے اپنے خوابوں کی تعبیر کے حصول کے ذریعے انسانی شعور اور فلاح کے لئے لازوال کوششیں کی اور تاریخ انسانی میں اپنا نام امر کرگئے۔ چاہے وہ نیلسن مینڈیلا جیسا کوئی سیاسی لیڈر ہو جس نے اپنی قوم کی فلاح کے لئے دیکھے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے 27 سال جیل کاٹی ہو، چاہے وہ مارٹن لوتھر کنگ جیسا جاگتی آنکھوں اپنی قوم کے حقوق حاصل کرنے کے لئے خواب دیکھتا ہواور زندگی کی بازی ہار دیتا ہو، چاہے وہ ایڈیسن، آئن سٹائن، سٹیفن ہائکنگ اور ان جیسا کوئی سائنسدان ہو جن کے خوابوں کی حقیقت پر آج دنیا کی سائنسی ترقی کی معراج کھڑی ہویا پھرFyodor Dostoevsky، William Shakespeare، Leo Tolstoy، Charles Dickensیا ان جیسا کوئی ادیب ہو جو اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے انہیں صفحہ قرطاس پر کچھ اس طرح اتارے کہ لوگ اس کو مرنے کے بعد بھی سینکڑوں سال تک یاد رکھیں۔

مگر ہم کیا کریں ہمارے معاشرے میں ہمیں صرف سوتے میں خواب دیکھنے کی عادت ہے اور پھر ان خوابوں کی تعبیر تاویلات میں ڈھونڈنے کی عادت ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو جاگتے میں خواب دیکھنا ایک طنزیہ عبارت کے طور پر لیا جاتا ہے اور ایسے خواب دیکھنے پر بھی پابندی ہے جن کے حصول کے لئے کوشش کرنی پڑے اور ایسی کوشش کو لاحاصل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پائلو کوئیلو کا کہنا ہے کہ کسی خواب کی تعبیر کا حصول اس وقت ناممکن ہوتا ہے جب کوشش کے ساتھ ہارنے کا ڈر ہو۔ اور ہمیں توخوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کی عادت ہے انہیں حاصل کرنے کی تو عادت ہی نہیں۔

ہمیں بحثیت قوم اور فرد خواب دیکھنے کی عادت ڈالنی ہو گی اپنی قوم و ملک کی ترقی اور خوشحالی کے خواب، معاشرتی رواداری، بہتری، انصاف، برابری اور انسانیت کے خواب اور ان سب کو حاصل کرنے کے طریقہ کار کے خواب، ہمیں اپنے بچوں کے لئے خواب دیکھنے ہوں گے اور پھر ان خوابوں کی تعبیر، اچھی بری تاویلات میں چھوڑ کرحقیقت کی دنیا میں ان کو حاصل کرنے کے لئے تن من دھن کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی ورنہ ہمارے خواب صرف خواب ہی رہیں گے اور ہم اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے کشکول ہاتھ میں لے کر در در ٹھوکریں کھاتے پھریں گے۔

چوہدری محمد رضوان
Latest posts by چوہدری محمد رضوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).