عوام کے لہو سے جلتا چراغ کب تک روشن رہ سکے گا


نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں عسکری لیجنڈز سے خطاب کرتے ہوئے ماہر اقتصادیات مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے فرمایا کہ قوم اور پاکستان کو سنجیدہ نوعیت کے سیکیورٹی خدشات ہیں۔ اسی فورم سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف نے فرمایا کہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات کا سبب سابقہ حکومتوں کی معاشی بد انتظامیاں ہیں۔ مشکل فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ رہی ہے۔ اب مشکل فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ قوم یگانگت کا مظاہرہ کرے۔ فوج نے اضافی بجٹ نہ لے کر مثال قائم کردی ہے۔ باقی ادارے فوج کی طرز پر قوم کی خدمت کریں۔

اسی شام حکومتی ارکان نے آئی ایم ایف کا بنایا ہوا بجٹ من و عن قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے، پاس کرلیا۔ دعائے خیر میں وزیر اعظم نے اپوزیشن کی خالی کرسیوں اور حکومتی ارکان کے سامنے پر جوش خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”تمام مسائل اور مہنگائی کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں اور نہیں چھوڑوں گا۔ ان سے پیسے نکلواؤں گا“۔

سابق صدر آصف زرداری نے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ ہم حکومت سے کوئی بات نہیں کریں گے، ریاست سے مذاکرات کریں گے۔ جب ہم بات کریں گے تو یہ نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ کی ترجمان کہتی ہیں وزیر اعظم کے پاس این آر او دینے کا اختیار نہیں۔ مریم نواز کہتی ہیں ”مذاق معیشت“ کا حصہ بننے والوں کو قوم معاف نہیں کرے گی۔ بلاول کہتے ہیں، حکومت نہیں گرائیں گے۔ اپوزیشن اس بات پر متفق ہوئی ہے کہ چیرمین سینٹ گرائیں گے۔

عوام کا مسئلہ، مہنگائی ہے۔ قوم کھانے پینے، کپڑے اور سواری سے لے کر پیدائیش اور موت تک ہر چیز پر ٹیکس دے رہی ہے، جکومت کہتی ہے لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ ہر آنے والی حکومت مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ وزیروں مشیروں کی تعداد میں لازمی اضافہ کرتی ہے، اس کے باوجود ہر حکومت پچھلی حکومت سے زیادہ غریب ہوتی ہے لیکن جونہی حکومت ختم ہوتی ہے، اس کے وزیر مشیر اربوں کی جائیدادوں کے مالک بن کر نکلتے ہیں، جبکہ عوام پہلے سے زیادہ غریب ہو چکے ہوتے ہیں۔ حکومت مہنگائی کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اپوزیشن چیرمین سینٹ کو گرانا چاہتی ہے، اور این آر او لینا چاہتی ہے، فوج کہ رہی ہے قربانی دو۔ عوام کہاں جائیں؟

ڈالر اور پٹرول کو آگ لگی ہوئی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ں۔ ادویات سو فیصد مہنگی ہو چکی ہیں اور ملکی خزانہ خالی ہے۔ سٹاک مارکیٹ کریش ہو رہی ہے، لیکن ایوان صدر کی تزئین و آرائش جاری ہے۔ وزیراعظم قطریوں کو پروٹوکال دیتے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ساتھ میں ایم کیو ایم کو نئی وزارت دیتے ہیں۔ پرویز الٰہی کے بیٹے کو مستقبل قریب میں مزید سہولت دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اختر مینگل کے ساتھ مالیاتی پیکج کا وعدہ کرتے ہیں لیکن عوام کو دھمکی دیتے ہیں کہ اثاثے ظاہر کرو نہیں تو ضبط کرلیں گے۔

قوم کو مشکل وقت کا واسطہ دیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈز کا لالچ دے کر توڑا جارہا ہے۔ عوام پر مزید پانچ ہزار ارب کے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں امسال ہم آٹھ ہزار ارب کے ٹیکس جمع کریں گے۔ عوام خوف میں مبتلا ہیں۔ کیا کریں کہاں جائیں۔

آصف علی زرداری حکومت سے بات نہیں کرنا چاہتے، ریاست سے بات چیت کے خواہش مند ہیں۔ نواز شریف حکومت کو فیصلہ ساز نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں، ان کے پاس این آر او دینے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ لوگ برسوں حکومت میں رہنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ حکومت با اختیار نہیں تو عوام کیا کریں۔ کس کے پاس جائیں۔ احتجاج کریں تو کس سے کریں۔ حکوت کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں یا ریاست کے سامنے عرضداشت ہو۔ کس سے فریاد کریں، کسے اپنا نوحہ سنائیں۔

حکومت سمجھتی ہے ریاست کو وہی کندھوں پر اٹھائے کھڑی ہے۔ ریاست سابقہ حکومتوں کو معاشی بے راہ روی کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ تیل نکل نہیں رہا۔ تیل نکلنے کی امید بھی کروڑوں ڈالر کا چونا لگا کر دم توڑ چکی۔ ادارے عوام کا تیل نکالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ غریب کا تیل کتنی دیر چراغ روشن رکھ سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).