سپریم کورٹ سے اچھی خبر


سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلہ میں جسٹس منیر کے فراہم کردہ جواز پر تنقید کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ اُس وقت کی ہائی کورٹ صوبہ پنجاب کی فوجداری عدالتوں میں زیادہ تر ریکارڈ ہونے والی شہادتوں کے عملی تجربے کے زیر اثر تھی کیونکہ جب ہائی کورٹ نے۔  ”اس صوبہ“ جیسے الفاظ کا اظہار کیا تو اس سے مراد یقینا مخصوص جغرافیائی حد بندی ہو گی جس کے رہنے والے لوگوں کے کردار اور ردعمل وغیرہ کی ہی بات کی گئی تھی جب کہ ملک کے دیگر صوبوں یا علاقوں کے لوگوں کے کردار اور ردعمل کی بات بالکل نہیں کی گئی جس سے یہ تو طے ہے کہ جسٹس منیر کاستدلال جو بعد ازاں پورے ملک پر لاگو کیا گیا نہ تو اس تناظر میں تھا اور نہ ہی اس کی کوئی ایسی نظیری حیثیت ہی تھی جس کو پورے ملک میں پہلے سے رائج شدہ ایک عالمگیر اصول شہادت کو منسوخ کرنے سے تعبیر کیا جا سکے۔

سپریم کورٹ نے مزید لکھا ہے کہ بصد احترام کسی ایسے عالمگیر مسلمہ اصول کہ جس کو قرآن و سنت کی بھی تائید حاصل ہو محض مخصوص ذاتی، تجربی یا عملیت پسندی پر مبنی استدلال سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ جھوٹی شہادت کے چلن جس سے مخصوص صوبے کا فوجداری عدالتی نظام اس وقت نبر د آزما تھا اُس وقت کی ہائی کورٹ نے بجائے اس برائی کا خاتمہ کرنے کے اس برائی کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے طور پر ایک الگ ہی اصول وضح کر لیا۔ ہمارے نزدیک یہ حکمت عملی انتہائی غیر دانش مندانہ تھی جس سے نہ صرف جھوٹی شہادت ریکارڈ کروانے کا چلن عام ہوا بلکہ اس نے منصف کے کام کو بھی مزید پیچیدہ اور مشکل ترین کر دیا اور ہمارے فوجداری عدالتی نظام کو عمومی طور کو سخت نقصان پہنچا۔

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ جسٹس منیر کے 1951 میں کیے گئے ایک فیصلے کو نظیری حیثیت بھی ایسی ملی کہ اس کے بعد متعدد مقدمات میں اعلی عدالتوں بشمول سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اپنے فیصلوں میں اس عالمگیر اصول شہادت کو متروک سمجھتے ہوئے سچ کو جھوٹ سے ممیز کرنے والے منیری اصول کو ہی معتبر جانا جن میں سر فہرست توائب خان کیس PLD 1970 SC 13، محمد احمد کیس PLD 1993 SC 418 سماناؤ کیس 1975 SCMR 162 بکہ کیس 1977 SCMR 150 خیرو کیس 1981 SCMR 1136 غلام سکندر وغیرہ کیس PLD 1985 SC 11 ضیاء اللہ کیس 1993 SCMR 155 ذوالفقار علی کیس 1993 SCMR 2946 اور ارشاد احمد کیس PLD 1996 SC 138 قابل ذکر ہیں جن میں تکرار سے قرار دیا گیاکہ پاکستان میں اصول falsus in uno falsus in omnibusکافی عرصہ سے متروک ہے لہٰذا سچ کو جھوٹ سے ممیز کرنا ہی رہنما اصول ہے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے قانونی استدلال سے جسٹس منیر کے وضح کردہ اصول کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی گواہ کی جھوٹی شہادت سے صرف نظر کرنا اور اس پر انحصار کرنا قانونی اعتبار سے بھی درست نہ ہے چونکہ تعزیرات پاکستان میں جھوٹی شہادت کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کے لیے سزائیں بھی موجود ہیں بلکہ اس موضوع کے لیے تعزیرات پاکستان میں پورا ایک باب مختص ہے جس میں دفعہ 191 سے لے کر دفعہ 211 کے تحت عدالت میں جان بوجھ کر جھوٹی شہادت دینے پرپوری صراحت سے الگ الگ سزائیں متعین ہیں جس سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ مقننہ نے عدالت میں جھوٹ بولنے والوں کے خلاف سختی برتنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جبکہ جسٹس منیر کے وضح کردہ اصول کے مطابق اگر جج جھوٹے گواہان کی سچائی تلاش کرنے کی سہی لا حاصل کرے گا تو اس کے خلاف انسدادی کارروائی کیسے ہو گی جس سے یہ تو ممکن ہے کہ عملی طور پر تعزیرات پاکستان میں سے پورا ایک باب حذف ہو جائے مگر جسٹس منیر نے جو چھلنی جج کو تھمائی ہے وہ چلتی رہے۔

حالانکہ جج کا منصب قانون کی تشریح تو ہو سکتا ہے مگرجج نیا قانون نہ تو بنا سکتا ہے اور نہ ہی کسی قانون کو ختم کر سکتا ہے یہ منصب مقننہ کو ہی حاصل ہے۔  سپریم کورٹ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی شخص کو جھوٹ بول کر عدالت کو گمراہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور اگر ایسا ہے اور جو کہ ہوتا رہا ہے تو اس کا اثر ہمارے سماج پر منفی طور پر پڑا ہے جس سے پرچہ درج کرواتے وقت اصل ملزمان کے ساتھ معصوم لوگوں کا نام شامل کرنے کا چلن عام ہوا ہے۔

جسٹس منیر کے اس ستدلال کہ جج کا منصب سچ کو جھوٹ سے ممیز کرنا ہے کا بطلان کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ جج کا منصب ہر گز سچ کو جھوٹ سے ممیز کرنا نہیں بلکہ یہ کام تفتیش کا ہے جج کا منصب تو آمدہ شہادت کو اصول شہادت پر پرکھنا ہے اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور یہ کہ اب تک کیے گئے تمام فیصلوں میں اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس نکتہ سے صرف نظر کیا ہے کہ جج کا منصب ہرگز چھلنی لے کر گھیوں سے گھن الگ کرنا نہیں ہے بلکہ گواہان استغاثہ کی شہادت کو ان عالمگیر اصولوں جن کی حیثیت مسلمہ ہے کے مطابق پرکھ کر معتبر گرداننا یا مکمل طور پر مسترد کرنا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ کے آخری حصہ میں مذہبی استدلال سے بھی ثابت کیا کہ جسٹس منیر کا وضح کردہ اصول اسلام کے واضح احکامات اور اسلامی اصول شہادت کے بھی منافی ہے سورہ بقرہ کی آئت نمبر 42، آیت نمبر 282 اور آیت نمبر 283 سورہ المائدہ کی آیت نمبر 8 سورہ النساء کی آیت نمبر 135 سورہ طلاق کی آیت نمبر 2 سورہ المائدہ کی آیت نمبر 106 سورہ الحج کی آیت نمبر 30 اور سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 72 کے ساتھ ساتھ احادیث کو خاص طور پر منقول کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گواہ کو سچ اور صرف سچ پر مبنی شہادت دینے کے واضح احکامات اس بات کی دلیل ہیں کہ جھوٹ کی ملاوٹ کرنے والے گواہ کی شہادت ناقابل پذیرائی اور مکمل طور پر رد کرنے کے قابل ہے جس سے بھی اس عالمگیر اصول شہادت یعنی falsus in uno falsus in omnibusکو تقدس حاصل ہے۔

اس طرح چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ اپنے لکھے ہوئے اس تاریخی فیصلہ میں جسٹس منیر کے وضح کردہ اصول کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے اور اس کے منفی اثرات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے نہ صرف ہمارے فوجداری عدالتی نظام کو نقصان پہنچا ہے بلکہ گواہوں کو بلا جھجک جھوٹ اور سچ کی ملاوٹ کرنے کا لائسنس بھی دیا گیا جس سے معاشرے میں جھوٹ کا چلن عام ہوا اور سچ کے تقدس اور اس کی اہمیت پر کاری ضرب لگی۔ چیف جسٹس لکھتے ہیں کہ جسٹس منیر کا وضح کردہ یہ اصول بھی ان کے بدنام زمانہ نظریہ ضرورت کی طرح ضرر رساں اور فہم و فراست سے عاری ہے۔

آخر میں چیف جسٹس لکھتے ہیں کہ جو عدالتی نظام جھوٹ اور جھوٹے گواہ کو برداشت کرتا ہے اس عدالتی نظام کا تباہ ہونا نوشتہ دیوار ہے اور جو سماج جھوٹ کو گوارا کرتا ہے وہ سماج اپنی تباہی کا سامان خود پیدا کرتا ہے۔  سچ انصاف کی بنیاد ہے اور انصاف مہذب معاشرے کی پہچان۔ جھوٹ پر سمجھوتہ معاشرے کے مستقبل پر سمجھوتا ہے لہٰذا ہم جسٹس منیر کے وضح کردہ اصول کو منسوخ کرتے ہیں اور عالمگیر مسلمہ اصول شہادت falsus in unu falsus in omnibusکو بحال کرتے ہیں اور تمام ماتحت فوجداری عدالتوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس اصول پر سختی سے عمل یقینی بنایا جائے اور اگر کوئی گواہ کسی اہم پہلو پر جان بوجھ کر جھوٹ کا سہارا لے یا سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمات چلا کر سزائیں دی جائیں تاکہ جھوٹی گواہی کا سد باب کیا جا سکے اور معاشرے میں سچ کا رواج عام ہو۔

وسیم اقبال اخونزادہ
Latest posts by وسیم اقبال اخونزادہ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2