این آر او: بے نظیر بھٹو قوم کی مُجرم یا مُحسن؟


وطنِ عزیز کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی کاسہ لیس بن چکی تھی، جنھوں نے ایل ایف او کے تحت یا سترہویں ترمیم کے ذریعے آئین شکن کو تحفظ دینے سے پہلے مشرف کے ساتھ ڈیل کر لی تھی۔ پی سی زدہ ججوں سے تھوک کے حساب سے بھری عدالتِ عظمٰی پہلے ہی آئین شکن جنرل مشرف کے فوجی اقتدار کو نظریہ ضرورت کی بنیاد پر جائز قرار دے چکی تھی۔ اس کے بعد عدالتِ عظٰمی نے بخوشی وردی پہنے جنرل مشرف کو بن مانگے تین سال شراکت بلا غیرے پاکستان پر حکمرانی کرنے کے ساتھ ساتھ آئینِ کو کہیں سے بھی تبدیل کرنے کی اجازت فرما چکی تھی۔ بعد ازاں، ڈکٹیٹر وردی کے اوپر شیروانی پہن کر صدر بھی بن گئے۔ اپریل 2005 ء میں سپریم کورٹ نے اُن تمام آئینی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا، جن میں پرویز مشرف کے دو عہدے (صدر اور چیف آف آرمی سٹاف) رکھنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکم صادر فرمایا کہ ”با وردی صدر ٹھیک ہے“۔

اقتدار چھن جانے کے بعد خاندانِ شریفاں نے جیل میں ایک سال کا عرصہ نالوں، فریادوں، مِنتوں اور ترلوں میں بڑی مشکل سے کاٹا۔ جیسے ہی ان کے معاملات ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ طے پائے، تو یہ پُورا خاندان عوام اور جیلوں میں بند مسلم لیگی لیڈروں تک کو بتائے بغیر رات کے اندھیرے میں انھیں تنہا چھوڑ کر رفو چکر ہو کر سعودی عرب میں سرور پیلس میں سَرُور لینے جا پہنچا۔ یاد رہے کہ یہ خاندان اپنا پُرتعیش سامان، پسندیدہ باورچی اور مالیشے ساتھ لے جانا نہیں بُھولا تھا۔

ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے ”حرم“ میں ناز و نعم سے پرورش پانے والے شریف برادران، اپنے پورے خاندان سمیت ایک دوسرے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ کیے گئے خفیہ معاہدوں کی دستخط شدہ دستاویزات منظر عام پر آنے سے پہلے کامل سات سال ( 2000 ء سے لے کر 2007 ء تک) قوم کے سامنے پورے اعتماد سے بار بار جھوٹ بولتے رہے کہ انھوں نے کوئی ڈیل نہیں کی اور نہ ہی کسی معاہدے پر دستخط۔ لیکن پاکستانی قوم 22 اگست 2007 ء کو اُس وقت سکتے میں آ گئی، جب پرویز مشرف حکومت کی طرف سے اُس معاہدے کی مصدقہ نقول سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئیں، جس پر میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے بیس دیگر افراد نے دسمبر 2000 ء کو جیل سے جان چھڑانے اور پاکستان چھوڑنے کے وقت دستخط فرمائے تھے۔

سرور پیلس میں گزری اس وی وی آئی پی جلاوطنی کے دوران خاندانِ شریفاں پاکستان سے آنے والی ٹیلیفون کالز کی گھنٹی پر بھی تھرتھرا جاتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ قربانیاں دینے والے مسلم لیگی لیڈروں تک کے فون نہیں سُنے جاتے تھے۔

شریف فیملی کا سعودی عرب میں بھی سٹیل ملز لگا کر نوٹ کمانے کا سفر البتہ جاری تھا، وہاں سرُور پیلس میں بیٹھ کر لطیفے سننے اور اپنے پسندیدہ کھابے کھانے اور کھلانے میں وقت خُوب مزے میں گزر رہا تھا۔ البتہ پیچھے نُون لیگ کے متوالے ذلیل و خوار ہو کر مُنہ چھپاتے پھر رہے تھے۔

بعد ازاں، جدّہ سے لندن میں جانے سے شریف فیملی کی عیش پرستی کے لوازمات مزید بڑھ گئے۔

عمران احمد خان نیازی نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی دل و جان سے کمپیئن چلائی تھی۔ 2002 ء کے عام انتخابات سے قبل ڈکٹیٹر سے دھاندلی کے ذریعے سِیٹیں لے کر سلیکٹڈ وزیرِ اعظم بننے کے لیے خُوب منتیں ترلے کیے (اگر کوئی اس بات سے انکاری ہے تو وہ پرویز مشرف کے اِس بارے مؤقف کی ضرور جانکاری لے، جو اس بات کا بار باز ذکر کرتے ہیں اور عمران خان آج تک اِس کی تردید نہیں کر سکے ) ۔ عمران خان سے جب بھی پرویز مشرف کی آئین شکنیوں کے خلاف کارروائی کا پوچھا گیا تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ”پرویز مشرف کو آئین توڑنے کی سزا میرا مسئلہ نہیں ہے“۔ مزید برآں، عمران خان نے کبھی آئین سے سنگین غداری کرنے والوں کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت نہیں کی بلکہ اُن کی تعریف اِس والہانہ اور عقیدت مندانہ انداز میں کرتے ہیں کہ جیسے کوئی عہدِ وفا یا رسمِ محبت نبھا رہے ہوں۔

پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں امریکہ کی ہر مانگ پوری ہو رہی تھی (جن کے نقصانات کا ازالہ ہماری کئی نسلیں کرتی رہیں گی) لہٰذا وہ مکمل طور پر پاکستان کے غیر آئینی حکمران کی پشت پر کھڑا تھا۔ ڈکٹیٹر کے شکنجے میں جکڑا ہوا پاکستان لاتعداد مسائل میں گھرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دلدل میں مسلسل دھنستا جا رہا تھا۔ صوبہ بلوچستان میں آگ لگی ہوئی تھی۔ شمالی علاقہ جات مکمل طور پر دہشت گردوں کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ پاک فوج کے خلاف عوام میں نفرت روز بروز بڑھ رہی تھی۔ لیکن پاکستان کی اس بدترین صورت حال سے ڈکٹیٹر اور اس کے حواری بالکل لاپرواہ تھے۔

دوسری طرف امریکی اور اس کے اتحادی افغانستان میں جنگ کی طوالت سے پریشان تھے، جو جلد از جلد جنگ بندی چاہتے تھے۔ اِن کی ہر فرمائش پوری کرنے والا پرویز مشرف کوششوں کے باوجود افغانستان میں جنگ بندی کرانے سے لاچار تھا بلکہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان آفریت بن کر ٹوٹ پڑی تھی، جس کی وجہ پاکستان میں دہشت گردی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ اس صورت حال میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عالمی طاقتوں کو باور کرایا کہ اگر وہ باوردی صدر کی حمایت چھوڑ دیں اور پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار کریں تو وہ جنرل (ر) نصیراللہ بابر کے ذریعے افغانستان میں جنگ بندی کروا سکتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنگ مخالف لابی میں شامل فرانس اور جرمنی ایسے ممالک کو اپنے نقطہ نظر کا حامی بنا لیا۔ اِن حالات میں امریکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف میں معاہدہ کرانے پر مجبور ہو گیا۔

پرویز مشرف نے اکتوبر 2007 ء میں این آر او جاری کیا اور نومبر 2007 ء میں وردی اُتار دی۔ وردی کو بجا طور پر اپنی کھال سمجھنے والے پرویز مشرف بہت بڑی خطا کر بیٹھے تھے، لہٰذا وہ وردی اُترنے کے بعد زہریلے سانپ کی جگہ فقط کیچوا بن کر رہ گئے۔ اس کے بعد وہ معاہدے کی ایک اور اہم شق یعنی تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ پر پابندی ختم کرنے سے انکاری ہو گئے۔ مزید برآں، پرویز مشرف نے دوسری بار آئین شکنی کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی لگا کر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ملک کی اعلٰی عدلیہ کے درجنوں ججوں کو برطرف کر کے انہیں گھروں میں نظر بند کرنے کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی متعدد پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے باعث بیشتر ٹیلی ویژن چینلز کئی روز تک بند رہے تھے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی پرویز مشرف سے کیے گئے معاہدے کو پس پشت ڈال کر فقط پاکستان کے آئین اور ریاستی نظام کو جمہوری بنانے کے لیے تنِ تنہا میدانِ کار زار میں اُتر پڑیں۔ جب وہ کراچی ایئرپورٹ پر اُتریں تو اُن کے استقبال کے لیے سڑکوں پر ٹھاٹھیں مارتا ہوا عوام کا سمندر موجود تھا۔ لاکھوں لوگ محوِ رقص تھے۔ عوام کی والہانہ محبت دیکھ کر وہ خوشی سے سمائے نہیں جا رہی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے شکرانے کے آنسو رواں تھے۔ جب وہ کارساز کے مقام پر پہنچیں تو غصے سے تلملاتے دشمنوں نے خوفناک ردعمل دیتے ہوئے دھماکے کر دیے، جس کی وجہ سے سینکڑوں جیالے شہید اور زخمی ہو گئے۔ دُشمنوں کا پیغام واضح تھا کہ جان بچا کر پاکستان سے واپس لوٹ جائیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے سانحہ کارساز کے بعد ہمت نہ ہاری بلکہ دہشت گردوں، مذہبی انتہا پسندوں اور مقتدرہ کے آمرانہ عناصر کے گٹھ جوڑ کو پہلے سے زیادہ شدت سے للکارنے لگیں۔ بی بی بہت اچھی طرح جانتی تھیں کہ اُن کی ہر جلسہ گاہ میں دہشت گرد گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ اُن کے رفقاء کی طرف سے اُنھیں بار بار روکنے پر اُن کا اصرار تھا کہ ملک و قوم کو درپیش خطرات سے نجات اور پاکستان کو ایک جمہوری اور روشن خیال بنانے کے لیے ان کے پاس عوام کو متحرک کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اُن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ القاعدہ، طالبان، ڈکٹیٹر مشرف اور اس کے بے مہار کارندے اُنہیں مارنے پر تُلے بیٹھے ہیں، لیکن وہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں اور منزل کی طرف پیش قدمی جاری رکھی۔

راولپنڈی کے جلسہ عام میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے باکمال خطاب کیا، اُنہوں نے پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے، ترقی پسند، جمہوری اور عوامی پاکستان کے لیے اپنا لائحۂ عمل دیا۔ اِس جلسہ عام سے اُن کی واپسی نہ ہوئی اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اُن کی شہادت پر جو ملک میں کہرام مچا، شاید کبھی کسی رہنما کی موت پر ایسا منظر تاریخ نے دیکھا ہو۔ اور جو خلأ پیدا ہوا، وہ پُر ہونے کو نہیں ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی ہی تھی، جس سے وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا اور میاں نواز شریف کی واپسی کا راستہ ہموار ہوا۔ پرویز مشرف خاندانِ شریفاں کے ساتھ دس سالہ معاہدے کے تحت اُنھیں پاکستان میں داخل ہونے کی قطعاً اجازت نہ دیتے۔ نہیں یقین تو یاد کیجیئے کہ کس طرح شریف برادان کی پاکستان میں آنے کی کوششوں کی خوب درگت بنائی گئی تھی۔ ایک بار تو نواز شریف کو اِسلام آباد ایئرپورٹ پر ڈنڈا ڈولی بنا کر ٹوائلٹ میں پھینک دیا گیا تھا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اُن کے خاوند آصف علی زرداری ہی تھے جنہوں نے مشرف کو مواخذے کے زور پر صدارتی محل چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ جو لوگ جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر دینے کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جنرل مشرف کا نظام ہی تھا، جس کے تحت اُنھوں نے گارڈ آف آنر لیا تھا مگر ایک ڈکٹیٹر سے اقتدار چھین کر پاکستان کو جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھانا عظیم کارنامہ تھا، جسے بے دلیلے اور بے سمتے لوگ کبھی اپنی زبان پر نہیں لاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3