وقت کی رفتار اور زندگی


 وقت کے پہیے کتنی تیز رفتاری سے گھومتے ہیں کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ چل پڑتا ہے۔ کچھ ذرا سا ٹھہراؤ آتا ہے وہاں زندگی کا حسین سفر شروع ہونے ہی لگتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وقت کے ساتھ دوڑنا پڑ جاتا ہے۔ معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے سماج کے وضع کیے گئے اصولوں پر رہنا پڑتا ہے، سماج کے بنائے گئے قوانین و ضوابط پر عمل پیرا ہونا پڑ جاتا ہے۔ بعض اوقات گھڑیال کی ٹک ٹک اس کے کانوں میں سرگوشی کرتی ہے کہ ابے پگلے زندہ رہنا ہے تو ساتھ چل۔

زندگی میں ٹھہراؤ آجاتا ہے مگر کم بخت وقت ہے کہ رکتا ہی نہیں اپنی مخصوص رفتار میں چلے جا رہا ہے بلکہ کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی رفتار میں تیزی آ گئی ہے جو اس کے پیچھے نہیں چلے گا وہ دم توڑ جائے گا۔ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ پہلے شاید وقت کی رفتار آہستہ تھی مگر اب کے اتنی تیزی ہے کہ زندگی پیچھے دھکے کھا رہی ہوتی ہے اور وہ سپیڈ سے چلے جا رہا ہوتا ہے۔ مجھے وہ پل ابھی تک ویسے ہی یاد ہیں جب وقت اتنا آہستہ ہوتا تھا کہ گمان گزرتا تھا کہ وہ رکا ہوا ہے اور اس کی رفتار کی آہستگی مجھے بالکل بھلی نہیں لگتی تھی بلکہ بوریت سی محسوس ہوتی تھی کہ کب یہ وقت گزر جائے گا مگر اب تو ایسا ہے کہ تیزی سے چھو کر کے پاس سے گزرتا ہے، شاید انجان ہو گیا ہے یا پھر بے وفا۔

کبھی تو ایسے بھی لگتا ہے کہ وقت اپنی مخصوص رفتار میں چل رہا ہے، شاید میں ہی سست ہو گیا ہوں اور کاہلی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وقت کے ساتھ چل بھی نہیں پا رہا ہوں اور کبھی تو ایسا گماں گزرتا ہے کہ وقت کی مخالف سمت چلا جا رہا ہوں کہ زندگی کے جھمیلے میں گم ہو کر وقت اور خود میں فاصلہ بڑھائے چلے جا رہا ہوں۔ جیسے جیسے وقت اور زندگی کا فاصلہ زیادہ ہوتا جا رہا ہے، ایسے لگتا ہے کہ پہلے وقت نے بے وفائی کی تھی اور اب زندگی بھی دغا دے جائے گی کیونکہ وقت کے ساتھ چل پایا اور نہ زندگی کے ساتھ جینے کا ڈھنگ آ رہا ہے، وقت نے کب سے الوداع کہہ دیا ہے اور اب زندگی کا پہیہ بھی زنگ آلود سا ہو گیا ہے شاید یہ بھی کبھی دغا دے جائے گی بلکہ جلد ہی زندگی بھی بے وفائی کر جائے گی کیونکہ اس سے قبل جب وقت روٹھا تھا تو کئی احباب بھی ساتھ سے بکھر گئے تھے سوائے میری تنہائی اور گنتی کے چند سانسوں کے، جن کا نام زندگی رکھا ہے۔

سنا تھا کہ زندگی بے وفا ہے، پر جب پوچھا کہ تم کتنی عزیز ہو کر بھی بے وفائی کا ارتکاب کیسے کر جاتی ہو؟ زندگی نے صاف انکار کیا بلکہ گلہ کرتے ہوئے کہا کہ زمانہ میرے بارے جھوٹ بولتا ہے، میں پر گز بے وفا نہیں ہوں، زمانہ ہی بے وفائی کر جاتا ہے اور مجھے دغا دیتے ہوئے موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ زندگی نے کہا کہ سب سے بڑا دغا باز تو حضرت انسان ہے جس سے قطعاً وفا کی توقع نہیں ہے، اگر امر ہونا چاہتے ہو، میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو جینا سیکھ لو، جی بالکل صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جینا سیکھ لو۔

جب دوسروں کے لیے سوچنا شروع کر دو گے تو پھر سبھی وفادار ہو جائیں گے، ہرگز کوئی بے وفائی نہیں کرے گا۔ وقت بھی تیرا تابع ہو جائے گا اور تم مر کر بھی زندہ رہو گے۔ وقت بھی تیری زندہ ہونے کی گواہی دے گا کہ تم مر کر امر ہو گئے ہو کیونکہ تم اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جیا کرتے تھے۔ پھر وقت ٹھہر جائے گا جب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے کارناموں کی بدولت پہچانے جاؤ گے کیونکہ پھر زمانہ تمہاری عظمت کی گواہی دے گا بس شرط یہی ہے کہ زندگی میں خود کی بجائے دوسروں کے لیے زندہ رہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).