ارشد وحید چوہدری کا ایڈٹ شدہ کالم


اس کہانی کا آغاز اگست 2014 میں اسی وقت ہو گیا تھا جب نواز شریف وزارت عظمی کے منصب پہ فائز تھے۔ 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور چار حلقے کھولنے کے مطالبے کی آڑ میں اسلام آباد پہ چڑھائی کر دی گئی تھی۔ وفاقی دارالحکومت میں 126 دن کی دھماچوکڑی اور قانون ساز ادارے کے سامنے قانون نافذ کرنے والے افسران و اہلکاروں کو سرعام تشدد کا نشانہ بنا کر وفاقی حکومت کی رٹ کو مسل دیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ پہ لعنت اور منتخب وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے جیسی بدزبانی کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے عوام کے نمائندوں کو ان کی اصل اوقات سمجھا دی گئی تھی۔ وقت آنے پہ پارلیمنٹ کا جنگلہ توڑنے کے پس پردہ اصل محرکات آشکار کرنے کا بیان دے کر مصلحت کا لبادہ اوڑھ لیا گیا۔

پھر پانامہ پیپر کا قضیہ شروع ہوا تو ایک بار پھر اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی دھمکی سے ن لیگیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے لیکن ریاست کی رٹ کو یقینی بنانے کی جرات تب بھی نہ ہوئی۔ اسی دوران ڈان لیکس سے خوف ذدہ ہو کر اپنے وزرا کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ ٹویٹ مسترد ہوئی تو تھوڑا دم خم دکھانے کا جذبہ بیدار ہوا لیکن فورا ہی ڈان لیکس کے پس پردہ حقائق سےجلدعوام کو آگاہ کرنے کا عندیہ دے کر پتلی گلی سے نکلنے میں عافیت جانی۔ پانامہ پیپرز پہ ماضی کے حلیف بھی حریف بن گئے تو ایسی جے آئی ٹی کو بھی قبول کر لیا جس کے ارکان کو بند کمروں میں کیا کچھ نہ کہا گیا تاہم دن کے اجالے میں اف کہنے کی ہمت بھی نہ ہو سکی۔

بطور وزیر اعظم بیٹے کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کی تصویر لیک ہونے پہ صرف دل میں برا جاننے جتنی زحمت گوارا کی۔ واٹس اپ کالز کا شورو غوغا بلند ہوا تو ریت میں سر دے دیا۔ بیٹی اور بطور وزیر اعظم خود جے آئی ٹی کے سامنے پیشی ہوئی تو کٹھ پتلی تماشہ نہ چلنے کا بیان دینے کی ہمت باندھی جو عمل درآمد سے پہلے ہی جواب دے گئی۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے وزارت عظمی سے نا اہل قرار دے دیا تو فیصلہ قبول کرنے کی بجائے جی ٹی روڈ سے گھر واپسی کے دوران ستر سالہ تماشے اور سازش کے ذکر سے ن لیگی کارکنان کا خون گرمایا لیکن سازش کے تانے بانے بننے والوں پہ لب کشائی کے لیے زبان نے ساتھ نہ دیا۔

ضمنی الیکشن میں دن دیہاڑے کارکنان اٹھائے گئے تو بھی روایتی مذمت پہ ہی اکتفا کیا گیا۔ احتساب عدالت میں بیٹی سمیت جتنی پیشیاں بھگتیں اتنے کارکنان عدالت کے باہر اکھٹے کرنے جتنی تڑ نہ دکھائی جا سکی۔ اپنی ہی حکومت کے وزیر داخلہ کو احتساب عدالت کے گیٹ پہ انہی کے ماتحت ادارے کے جوانوں نے روک لیا لیکن باز پرس کرنے کی طاقت پیدا نہ کی جا سکی۔ اسی ماتحت ادارے کے پارلیمنٹ کی سیکیورٹی پہ مامور جوانوں کو واپس بلا لیا گیا لیکن حکومت کے ماتھے پہ شکن تک نمودار نہ ہوئی۔

چند درجن مظاہرین کی مدد سے فیض آباد دھرنے کے ذریعےریاستی مشینری کو کو مفلوج کر دیا گیا لیکن حکومت عوام کو پرتشدد مظاہرین کے رحم وکرم پہ چھوڑ کر بلوں میں جا گھسی۔ اپنے اس بے بسی پہ بھی سوائے آنسو بہانے کے کابینہ کچھ نہ کر پائی۔ اسی دوران میڈیا پہ مخصوص عناصر شتر بے مہار کی مانند دن رات حکومت وقت کا بینڈ بجاتے رہے لیکن تلملانے سے زیادہ کچھ نہ کیا جا سکا۔ وزیر خزانہ کو حکم عدولی کی پاداش میں مقدمات میں الجھا کر بیرون ملک فرار ہونے پہ مجبور کر دیا گیا لیکن صبر کے گھونٹ پی لینا ہی مناسب جانا۔

سینیٹ الیکشن کا وقت آن پہنچا۔ درجن سےز یادہ ن لیگی امیدواروں سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔ سامنے بھاؤ تاؤ ہوتا رہا لیکن غیرت نے جوش نہ مارا اور ایک بار پھر ملک کے وسیع تر مفاد میں لب سی لئے۔ عام انتخابات کا بگل بجا تو مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو جیپ اور بلے کے انتخابی نشان پہ لڑنے کے لئے مجبور کیا گیا تاہم ایسا کرنے والوں کے آگے بند باندھنے کی جسارت کی گئی اور نہ ان کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی سعی ہی کی گئی۔

شیر کے نشان پہ الیکشن لڑنےو الے امیدواروں کے پوسٹرز اور بینرز اتارے گئے لیکن رسمی احتجاج بھی نہ کیا گیا۔ عام انتخابات سے صرف چند دن قبل بیمار اہلیہ کو بستر مرگ پہ لندن چھوڑ کر بیٹی سمیت گرفتاری دینے کے لیے آنے والے پارٹی قائد سے اظہار یک جہتی کے لیے لاہور کی سڑکوں پہ نکلنے والے ہزاروں کارکنوں میں سے چند درجن ائرپورٹ پہنچنے کی جرات بھی نہ دکھا سکے اور پوری پارٹی باپ بیٹی کو ٹی وی اسکرینوں پہ جیل جاتے دیکھ کر اللہ کی رضا سمجھ کے صبر شکر کر کے بیٹھ گئی۔

اڈیالہ جیل میں نواز شریف کو طبیعت کی خرابی پہ بیٹی نے بمشکل اسپتال جانے پہ رضامند کیا تاہم وہ طبی امداد کے بعد جلد ہی واپس جیل پہنچ گئے۔ اس دوران بھی پارٹی رہنما اور کارکنان اسپتال اور جیل کے باہر ایک کیمپ تک لگانے کے روادار نہ ہوئے۔ اسی دوران عام انتخابات میں پکڑ دھکڑ، پولنگ اسٹیشنوں کے اندر سیکیورٹی کے جوانوں کی تعیناتی، فارم 45 کی عدم دستیابی اور آر ٹی ایس کے ناکام ہونے سمیت دیگر بے قاعدگیوں پہ صرف خون کے گھونٹ پینے پہ اکتفا کیا گیا۔

اڈیالہ جیل میں باپ بیٹی کو قید تنہائی میں رکھا گیا بنیادی سہولیات تک فراہم نہ کی گئیں لیکن اسے بھی مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کرنے میں ہی بھلائی سمجھی گئی۔ تین بار کے وزیرا عظم کو دوران حراست بیمار اہلیہ سے آخری دنوں میں بھی فون پہ بات تک نہ کرنے دی گئی اور اسے جیل میں اہلیہ کی رحلت کی خبر سنا دی گئی لیکن آفرین ہے کہ پارٹی کے صبر کا پیمانہ پھر بھی لبریز نہ ہوا اور پارٹی رہنما پیرول پہ رہا ہونےو الے باپ بیٹی کو صرف پرسہ دے کر بری الذمہ ہو گئے۔

احتساب کے نام پہ انتقام کا شکنجہ مزید سخت کیا جاتا رہا اور پارٹی صدر سمیت دیگر رہنماؤن کے خلاف نت نئے مقدمات بنائے جاتے رہے۔ قید و بند کا سلسلہ بھی جاری رہا تو زیادہ سے زیادہ احتجاج صرف پروڈکشن آرڈر جاری کرنے تک محدود رہا۔ ایون فیلڈ میں سزا معطی کے بعد تھوڑا عرصہ بیٹی کے ساتھ آزاد رہنے والے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں دوبارہ کوٹ لکھپت پہنچا دیا گیا تو مناسب طبی سہولیات کی عدم فراہمی پہ بھی بیٹی کے سوا کسی رہنما نے زیادہ آواز بلند کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔

کارکنان نے یوم قائد پہ اپنے قائد کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے جیل کے باہر جمع ہونے کے بارے میں سوشل میڈیا پہ مہم چلائی تو ایک بار پھر مصلحت آڑے آ گئی اور انہیں روک دیا گیا۔ بطور نائب صدر پارٹی اور بیٹی مریم نواز نے باپ کے حق میں آواز بلند کرنا شروع کی تو ان کے خلاف مقدمات کے لیے نئی فائلیں کھول دی گئیں۔ شہباز شریف کو ضمانت ملی تو بیٹا ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پہ نیب کی تحویل میں چلا گیا لیکن اس دوران پارٹی مزاحمت یا مفاہمت کے بیانیے میں بٹی رہی۔ خواجہ برادران کے بعد شاہد خاقان عباسی۔ خواجہ آصف۔ احسن اقبال اور دیگر مرکزی رہنماؤں کے خلاف نیب نے مقدمات قائم کیے۔ پیشیاں جاری لیکن صرف بیانات کی حد تک انتقامی سیاست قرار دینے پہ گزارہ۔

اسی دوران سوشل میڈیا پہ متحرک پارٹی کارکنان کے خلاف بھی کارروائیاں لیکن سوائے مریم نواز کے ان کے لئے تو کوئی ایک بیان تک دینے کا روادار نہیں۔ نواز شریف سے ان کے ذاتی معالج سمیت معمول کی ہفتہ وار حتی کہ خاندان کے بھی پانچ سے زیادہ افراد کی ملاقاتوں پہ پابندی اور اب رانا ثنا اللہ کو منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد بھی پارٹی کی طرف سے وہی روایتی مذمتی بیانات اور اگلی کارروائی کا انتظار۔ مسلم لیگ ن کی وہ حالت ہے کہ ایک آدمی کو مار پڑ رہی تھی۔ وہ مار کھاتا تھا۔ اٹھتا تھا اور مارنے والے سے کہتا تھا “اب کے مار”۔ مارنے والا اسے ایک اور جڑ دیتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).