ایران جوہری معاہدہ: کیا کوئی راستہ بچا ہے؟


Protesters against the Iran nuclear deal

ایران کا کہنا ہے کہ جب تک اس کے خدشات دور نہیں کیے جاتے وہ معاہدے کی مذید شقیں توڑتا رہے گا

کیا ایران کا جوہری معاہدہ بےشمار زخم لگنے سے مر رہا ہے یا حقیقت میں یہ مر چکا ہے لیکن کوئی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر رہا؟

امریکہ نے ایک سال قبل اس معاہدے سے لاتعلقی اختیار کر لی تھی۔ پہلے یورینیم کو ذخیرہ کرنے کی مخصوص حد سے تجاوز کر کے اور اب یورینیم کو 3.67 فیصد ارتکاز کے معیار سے زیادہ پر افزودہ کر کے ایران آہستہ آہستہ شرائط کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

ایران کا کہنا ہے کہ جب تک اس کے خدشات دور نہیں کیے جاتے وہ معاہدے کی مزید شقیں توڑتا رہے گا۔

تہران سے آیا پیغام بالکل واضح ہے۔ ایرانیوں کا اصرار ہے کہ اس مہینے تک وہ اس معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرتے آئے ہیں جسے جے سی پی او اے (جوائنٹ کومپری ہینسو پلان آف ایکشن یا عمل درآمد کا مشترکہ جامع معاہدہ) کا نام دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پومپیو: امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا ہے

ایران کا فیصلہ جوہری بلیک میل ہے: امریکی اہلکار

ایران سے خطرہ: امریکی جنگی بیڑا خلیجِ فارس میں تعینات

اقوامِ متحدہ کے جوہری ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے بھی وائٹ ہاؤس کے دعووں کے برعکس ایران کے اس بیان کی تصدیق کی ہے۔

Leaders pose for photos after agreeing the 2015 Iran nuclear deal

AFP/Getty
یورپی ممالک جن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں، واشنگٹن اور تہران کے بیچ میں پھنس کر رہ گئے ہیں

ایک بار پھر سے ایران پر امریکی اقتصادی پابندیوں کے اطلاق کا مطلب ہے ایرانی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ایرانیوں کا کہنا ہے انھیں اس معاہدے سے معاشی فوائد حاصل نہیں ہو رہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یورپی ممالک کسی طریقے سے امریکی دباؤ کو کم کروائیں۔

یورپی ممالک جن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں، واشنگٹن اور تہران کے بیچ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ معاہدہ قائم رہے اور اس کے لیے انھوں نے سست روی سے ہی سہی مگر ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جو تہران تک ایسے امدادی سامان کے لیے ادائیگیوں میں آسانی پیدا کرے گا جن پر امریکی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔

ایران کے لیے یہ کافی نہیں۔ ایرانی چاہتے ہیں کہ تیل اور دھاتوں جیسے ان کی معیشت کے اہم شعبے امریکی دباؤ سے آزاد ہو جائیں لیکن اس کام میں یو رپی ممالک ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔

ان کے ارادے اچھے ہیں لیکن جوہری معاہدے کی حمایت کے لیے یہ ایک سفارتی چال سے زیادہ کچھ نہیں۔

بالاخر حکومتوں کے بجائے انفرادی کمپنیوں کو خطرات مول لیتے ہوئے ایران کے ساتھ تجارت کرنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔

اس صورتحال کا اندیشہ اسی وقت سے ظاہر کیا جا رہا تھا جب صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کو ترک کیا۔

اگرچہ امریکہ اور اس کے اہم یورپی اتحادی جوائنٹ کومپری ہینسو پلان آف ایکشن پر متفق نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں، اس کے میزائل پروگرام اور خطے میں برتاؤ کو لے کر ان کے خدشات بھی امریکہ جیسے ہی ہیں۔

تیل کے ٹینکروں پر حملے اور امریکی ڈرون کو مار گرانے جیسے خلیج میں بحران پیدا کرنے والے واقعات، ان خدشات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

دو بہت ہی مختلف حکمتِ عملیاں چل رہی ہیں۔ اوباما انتظامیہ اور امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ روس اور چین کی کوششوں سے یہ جوہری معاہدہ ممکن بنا تھا۔

ایران کا جوہری پروگرام وسیع ہو رہا تھا اور شاید یہ فوجی لحاظ سے کوئی اور سمت اختیار کر لیتا کیونکہ اس میں حالات کے مطابق بہت جلد دوبارہ کام شروع کرنے کی صلاحیت بھی تھی۔

مقصد یہ تھا کہ ایران اس معاہدے کے ذریعے کچھ مدت کے لیے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کر دے۔

یہ معاہدہ مثالی نہیں تھا لیکن اس وقت یہی سمجھا گیا کہ کوئی معاہدہ ہو جانا، کسی معاہدے کے نہ ہونے سے بہتر ہے۔ اس پر دستخط کرنے والوں کا ابھی بھی یہی موقف ہے، سوائے امریکہ کے۔

خیال یہ تھا کہ کسی فوری بحران کو ٹالنے کے لیے اس مسئلے کو ملتوی کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل ایران کے جوہری انفراسٹرکچر کو اسرائیل یا امریکہ کی جانب سے تباہ ہونے کا شدید خطرہ لاحق تھا۔ اس دوران اس بات کی بھی امید تھی کہ شاید ایران میں حالات کچھ بدل جائیں۔

صدر ٹرمپ کے لیے سابقہ صدر اوباما کا یہ معاہدہ بالکل بھی قابلِ قبول نہیں تھا۔ وہ اس سے چھٹکارا چاہتے تھے۔ لیکن اس کے برعکس وہ دباؤ بڑھانے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس پالیسی کا مقصد کیا ہے؟ یہ ابھی تک واضح نہیں۔

ان کی انتظامیہ میں کچھ لوگ تہران میں حکومتی تبدیلی کا خیر مقدم کریں گے۔ باقیوں کا خیال ہے کہ اس کا مقصد ایرانیوں کو مذاکرات کی میز تک لا کر ان سے پہلے سے زیادہ سخت شرائط والے جوہری معاہدہ کا کڑوا گھونٹ بھروانا ہے۔

امریکہ سے باہر بھی اس کے اتحادیوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ آخر صدر ٹرمپ کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔

واشنگٹن میں برطانیہ کے سفیر سے حال ہی میں لیک دستاویزات جن میں انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی ایران پالیسی کو ’ناقابل یقین حد تک غیر مربوط‘ قرار دیا تھا، ان سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے۔

اس سب سے یہی سوال اٹھتا ہے کہ جوہری معاہدے کی دستاویز کو ناکارہ قرار دینے کے لیے ایران کو اس معاہدے کی کتنی خلاف ورزیاں کرنا ہوں گی؟

یا یوں کہہ لیں کہ انھیں یہ دکھاوا کرنا کب چھوڑنا ہوگا کہ اس جوہری معاہدے کا کوئی مستقبل ہے اور اس کے خاتمے کی صورت میں وہ ممکنہ نتائج سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

Donald Trump holding up his small hand

امریکہ سے باہر بھی اس کے اتحادیوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ آخر صدر ٹرمپ کے دماغ میں چل کیا رہا ہے

یورپی ممالک، مشترکہ اور جامع پلان آف ایکشن کو جاری رکھنے کے لیے سخت کوششیں کر رہے ہیں لیکن شاید ایران نے امریکی دباؤ کم کروانے کے لیے ان کی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا ہے۔

ایران کی حالیہ خلاف ورزی کے بعد فرانسیسی صدر ایمینول میکخواں نے انتہائی مہارت سے معاہدے میں موجود تمام ممالک کے درمیان مذاکرات کی تجدید کے لیے ایک ہفتہ مشاورت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ایرانیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ بھی ان مذاکرات میں شرکت کر سکتا ہے اگر وہ اقتصادی پابندیاں اٹھا لے تاہم اس بات کا کوئی امکان نہیں۔

کسی قسم کے ایکشن کے لیے 60 دن کی تاخیر کا وقت مانگ کر دراصل ایران اس بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے حالات کو قابو کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس معاہدے سے مکمل لاتعقلی ظاہر کرکے ایران کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا یا نہیں۔

تاہم کسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ یورپ کا نقطہ نظر وہی ہے جو برطانیہ میں بچوں کے لیے بنائی گئی معروف فلم میں دکھایا جاتا ہے جس میں ایک کھلونا ٹرین، لائن کے آخر کی جانب دوڑتی ہے اور ایک کردار اسے تباہ ہونے سے بچانے کے لیے راستے میں ٹریک کا ایک اور ٹکڑا رکھتا جاتا ہے۔

یورپی ممالک کے لیے سوال یہ ہے کہ یہ ٹریک ختم کب ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp