اِسی لیے امریکہ ایک سپرپاور ہے


جب 9 سیٹوں والے جہاز نے جدید شہر کی فضاؤں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھنا شروع کیا تو جہاز کے اندر موجود ٹیلی فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔  گورنر راڈ بلیگووچ نے اپنے اسسٹنٹ کو ٹیلی فون سننے سے منع کردیا اور جھنجھلائی ہوئی آواز میں بولا کہ میں کسی سے کوئی بات نہیں کروں گا کیونکہ یہ بہت بڑی خبر ہوسکتی ہے کہ مجھے گورنری سے ہٹا دیا گیا ہے، امریکی ریاست کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ بلیگووچ 16 سال قبل گورنر مقرر ہوئے تھے۔

انہوں نے ریاست میں اصلاحات کا نعرہ لگایا اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی لیکن اپنے وعدوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔  آہستہ آہستہ ان پر بدانتظامی، کرپشن اور مہنگائی کے الزامات بڑھتے گئے۔  یہاں تک کہ ریاست میں سینیٹ کی خالی سیٹ بیچنے کا الزام بھی آیا۔ وہ 9 دسمبر 2008 ء کو انہی الزامات کی بنیاد پر گرفتار بھی ہوئے۔  سینیٹروں کی ایک ٹیم ان سے تفتیش کرنے ریاستی دارالحکومت آئی تو انہوں نے ملنے سے انکار کردیا۔

گورنر کو احتسابی عمل کے طریقہ کار پربہت غصہ تھا کہ ایک اعلیٰ شخصیت کے مقدمے کوعام قوانین کے تحت چلایا جارہا ہے۔  انہوں نے بے شمار ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کرکے اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مختصر یہ کہ ہٹ دھرمی کی انتہا تھی کہ وہ کسی طرح بھی جھکنے کے لیے تیار نہ تھے لیکن مضبوط ملکی قوانین نے معاملے کو پارلیمنٹ تک جا پہنچایا۔ سینیٹ میں اپنی حاضری سے پہلے ساری رات وہ اپنی تقریر خود لکھتے رہے، بوکھلاہٹ میں اپنی ٹانگ بار بار ہلاتے اور اپنی بیوی پیٹی کو پکارتے رہے۔

صبح دوسرے شہر میں موجود سینیٹ کی پیشی کے لیے ایئرپورٹ جانے لگے تو گاڑیوں کا سرکاری پروٹوکول موجود تھا۔ انہوں نے سوچا کہ وہ اب پروٹوکول کی زندگی سے باہر آرہے ہیں اس لیے دوبارہ ایک عام انسان کے تجربے سے گزرنا چاہیے، اور وہ خود اپنی گاڑی چلاکر ایئرپورٹ لے گئے۔  اس دوران ہوا میں اخباری رپورٹروں کے ہیلی کاپٹر مسلسل ان کی گاڑی کی تصویریں بناتے رہے۔  سینیٹ ہال میں پہنچنے کے بعد وہ موٹی لکڑی والے دروازے کے باتھ روم میں گئے۔

سرپر پھیرنے والا اُن کا پسندیدہ کالا برش بھی ان کے ہاتھ میں تھا۔ واپس آکر انہوں نے اپنے اسسٹنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بس کھیل ختم ہوا اور غصے سے بھرے سینیٹروں کے سامنے اپنا بیان پڑھ دیا۔ گورنر مینشن سے نکل کر سینیٹ ہال اور واپس آنے تک 6 گھنٹے کے سفر کے دوران انہوں نے اپنے ساتھ ایک صحافی اور ایک کیمرہ مین کو رکھا جن کے اخراجات اخبار انتظامیہ نے برداشت کیے۔  گورنر بلیگووچ صحافی سے باربار دو باتوں کا ہی ذکر کرتے رہے۔

جن میں سے ایک یہ کہ اب انہیں گورنری کی تنخواہ نہیں ملے گی تو وہ اپنے گھر کے قرضے کی قسط ہرماہ کیسے ادا کریں گے؟ دوسرا یہ کہ وہ سیاست میں اس انجام تک اِس لیے پہنچے کہ انہوں نے غلط مشیروں کا انتخاب کیا اور یہی ان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی۔ بلیگووچ گھر پہنچے تو ملازم کو اپنا ذاتی سامان پیک کرنے کا حکم دیا جو چند خاندانی تصاویر، ایک سٹیچو اور کچھ کپڑوں پر مشتمل تھا۔ ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے انہوں نے باورچی کا کندھا تھپتھپایا اور کہا ابھی نوٹی فکیشن نہیں ہوا، میں ابھی تک گورنر ہوں لہٰذا تمہاری شام کی چھٹی منظور کرنے کا اختیار رکھتا ہوں۔

ملازمین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔  چند افراد پر مشتمل سامعین کو مخاطب کرکے بلیگووچ نے پوچھا کہ میں گورنر ہاؤس سے آبائی گھر کیسے جاؤں گا؟ کیا مجھے کسی سے لفٹ لینا پڑے گی یا بس پر بیٹھ کر جانا پڑے گا؟ وہ لوگوں کا سامنا نہیں کرسکتے تھے لہٰذا انہوں نے گورنر ہاؤس کی ایک خفیہ راہداری سے نکلنے کا فیصلہ کیا جس میں جابجا پانی کھڑا تھا اور لوہے کے پائپ بکھرے تھے۔  کرپٹ حکمران کی یہ داستان اُ س ملک کی ہے جس کے دنیا پر جبروتشدد کے چرچے سے اخبارات، رسائل اور کتابیں بھرچکی ہیں۔

یہ پرانے وقتوں کا نہیں بلکہ 30 جنوری 2009 ء کا واقعہ ہے۔  یہ ذکر الف لیلیٰ کے دیس کا نہیں بلکہ امریکہ کا ہے۔  بلیگووچ نے 1992 ء سے سیاست شروع کی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن بنے۔  وہ بش انتظامیہ کے دوران امریکی ریاست الینوئے کے گورنر مقرر ہوئے لیکن اِسی انتظامیہ نے اُن پر کرپشن کا مقدمہ چلایا۔ انہوں نے سینیٹ کی جس سیٹ کو فروخت کرنے کی کوشش کی وہ امریکہ کے سابق صدر باراک اوبامہ کی خالی کردہ نشست تھی۔

نیویارک ٹائمز نے مندرجہ بالا گورنر کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”امریکہ میں عام شہری اور حاکم کے لیے ایک ہی قانون ہے، حکمران بدلنے سے انصاف نہیں بدلتا“ جبکہ ہمارے ہاں تو عام شہری اور با اثر لوگوں کے لیے شاید علیحدہ علیحدہ قانون ہیں۔  انصاف، گریڈ اور مرتبہ دیکھ کر کیا جاتا ہے۔  جتنا بڑا گریڈ اور مرتبہ اتنا ہی رعایتی انصاف۔ بادشاہ کا مذہب سب کا مذہب بن جاتا ہے۔  ہمارے ہاں باس کے موڈ کو ہی قانون سمجھا جاتا ہے مگر امریکہ کی ریاست کے مندرجہ بالا کرپٹ گورنر نے اپنا ذاتی مکان بھی قسطوں پر حاصل کیا جبکہ ہمارے ہاں کرپٹ کلرک کے پاس بھی کئی ذاتی مکان اور پلازے ہوتے ہیں۔

مندرجہ بالا امریکی گورنر بلیگووچ ڈیموکریٹ تھے اور ڈیموکریٹک صدر کی حکومت کے دوران ہی فارغ ہوئے جبکہ یہاں کرپشن کے مقدمات عموماً حکومت برخواست ہونے کے بعد بنائے جاتے ہیں۔  جارج بش کو شکست اِس لیے نہیں ہوئی کہ پوری دنیا اُسے ایک ظالم شخص قرار دیتی تھی بلکہ اِس لیے ہوئی کہ اُس نے امریکیوں کو غیرمطمئن کردیا تھا۔ اپنے شہریوں کے لیے یکساں انصاف کی وجہ سے ہی امریکہ 53 ریاستوں کے ساتھ دنیا پر حکمرانی کررہا ہے۔

امریکہ میں ابراہم لنکن کے زیراستعمال ڈیڑھ سوسالہ پرانی بائبل پر ہاتھ رکھ کر نیا صدر حلف لیتا ہے۔  امریکہ میں عام شہری اور حاکم کے لیے ایک ہی عدالت ہے۔  امریکہ کو قانون کا ملک یعنی نیشن آف لاء کہا جاتا ہے جبکہ پاکستان کو نیشن آف کونٹیکٹس کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہاں کسی بڑے سے تعلق داری کوئی بھی کرشماتی کام کرسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).