بند ”کیپیٹل ٹاک“ میں حق داد اور مشرف کی یاد


میں لاہور میں تھا جب ”جیو“ کے ڈرامے ”خان“ کی ہر آنے والی قسط کا بے صبری سے انتظار رہتا تھا۔ پاکستان کی ”ڈرامائی سیاست“ کو ”وکھرے“ انداز میں دکھانے کے لیے ”شاندار“ اداکاروں کی ”جاندار“ اداکاری کا سہارا لیا گیا، ڈرامے کے مرکزی کردار کا نام ”حق داد خان“ تھا جو کہ ”نعمان اعجاز صاحب“ نے با طریقِ احسن نبھایا۔

حق داد خان کی ایک بیٹی ”نیلم خان“ نے ٹی۔ وی اینکر کا کردار نبھایا۔ آٹھویں قسط کے آغاز میں ”قومی ایئر لائن اسکینڈل“ کی خبر چل رہی ہوتی ہے، جوں ہی اینکر بولتا ہے کہ ”اس اسکینڈل میں بڑے بڑے نام بے نقاب ہو سکتے ہیں“، خبر بند ہو جاتی ہے۔ گھر بیٹھے ٹی۔ وی پر یہ خبر دیکھ کر ”نیلم خان“ اضطرابی حالت میں کسی کو فون کر کے خبر بند ہونے کی وجہ پوچھتی ہے۔ جواب میں وہ شخص بتاتا ہے کہ کوئی فون آیا تھا اس لیے خبر بند کرنا پڑی۔ اس اسکینڈل میں حق داد خان کے ایک دوست ”صادق نامی وزیر“ کا نام آرہا ہوتا ہے۔

مجھے لگا کہ چند منٹوں میں خبر سے لے کر پورے پروگرام تک کو بند کروانا صرف ایک ”ڈرامے“ میں ممکن ہے۔ مگر حیرت تب ہوئی جب ان واقعات نے حقیقت کا روپ دھار لیا اور معلوم ہو ا کہ حامد میر کا چلتا ہو اپروگرام اچانک بند ہو گیا۔ اس پروگرام میں سابق صدر آصف علی زرداری کا انٹرویو چل رہا تھا جو ان کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے دوران ریکارڈ کیا گیا تھا۔

حامد میر کا پروگرام بند ہونے کے بعد میرے کانوں میں بار بار ”حق داد خان“ کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں کہ ”یہ ہمارا ملک ہے، ہم جو چاہے کریں“۔ پروگرام بند ہونے کی کوئی بھی مستند وجہ ابھی تک سامنے نہیں آئی مگر اس واقعہ نے پرویز مشرف دور یاد دلا دیاہے جب نا پسندیدہ اینکرز کے پروگرام بند کروا دیے جاتے تھے۔ جیو پر پابندی لگائی گئی، حامد میر نے خود لکھا کہ ہم پروگرام کر رہے تھے تو اچانک کھڑکیوں میں باہر سے پتھر آ کر لگنے شروع ہو گئے۔ وہ رانا الطاف مجید جیسے کردار بھی یاد آئے جس نے 2007 میں وکلاء تحریک کو اہمیت دینے والے چینلز کی اہمیت کم کرنے کے لیے پاکستان میں بھارتی چینلز کھلوا دیے تھے۔

خدا کا شکر ہے کہ آج کسی مشرف جیسے ڈکٹیٹر کی حکومت نہیں مگر پھر بھی یہ سنسر شپ کا شوق کیوں پیدا ہو گیا؟ کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان کا ترجمان احسان اللہ احسان جو کہ ایک دہشت گرد ہے اور سیکورٹی اداروں کی تحویل میں ہے، اس کا انٹرویو نشر ہو سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں؟ خود حامد میر صاحب کہتے ہیں کہ انہیں ادارے کی طرف سے صرف اتنا بتایا گیا ہے ان پر دباؤ تھا اس لیے یہ پروگرام نشر نہیں کیا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر صاحب نے کہا اس میں حکومت یا پیمرا کا ہاتھ نہیں۔ یہ پروگرام ان اداروں نے رکوایا جو خود کو حکومت سے طاقت ور سمجھتے ہیں۔ جیو نیوز کے ڈائریکٹر (نیوز) رانا جواد نے کہا وہ اس سلسلے میں کوئی بھی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ چیئر مین پی۔ پی بلاول بھٹو نے اس پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا سلیکٹڈ حکومت صرف سلیکٹڈ آوازیں سننا چاہتی ہے۔

سینیٹر شیری رحمان نے بھی سوال اٹھایا کہ یہ انٹرویو کس کے ایماء پر روکا گیا؟ اس بارے حکومت اور ”اعلی حضرت اداروں“ کو اپنی ”پاک دامنی“ ثابت کرنے کے لیے جلد از جلد وضاحت دینا ہو گی اور بتانا پڑے گا کہ اس پروگرام کی بندش کے پیچھے کون سا حق داد خان تھا؟ ویسے بھی ملک میں آج کل ایک ”سول مارشل لاء“ کی کیفیت چل رہی ہے۔ یعنی جس کی زبان ہلے، ”گلے سے کھینچ کر نکال لو“ جو ہاتھ ”نعروں“ کی صورت میں اٹھے اسے کندھوں سے رکھ کے کاٹ دو۔

ہر جمہوری حکومت پر تنقید ہوتی آئی ہے اور یہ جمہوریت کا ”حسن“ ہے۔ خان صاحب جن ”وڈے چوہدریوں“ کے ایماء پر ”زبان بند“ کا اصول اپنا رہے ہیں وہ تو آتے جاتے رہیں گے اور ہر مشکل وقت میں ان کے ”نکے چوہدری“ انہیں ہی سپورٹ کریں گے، مگر خان صاحب آپ نے تو پانچ سال گزارنے ہیں تو ذرا احتیاط سے کام لیں، ذرا ہتھ ہولا رکھیں۔ بس اتنا خیال کریں کہ یہ جمہوری حکومت ہے اور جمہوری حکومت میں ”ایسا نہیں چلے گا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).