انجم رومانی اور ”کوئے ملامت“ کی شاعری


اس شاعر کے مضامین شاعروں کے ازدہام میں اس طرز پر اُستوار نہیں ہوتے کہ ایک شاعر دوسرے شاعروں کا کلام پڑھ کر اور ان میں آڑ واڑ لگا کر اپنا چہرہ دکھاتے نہیں تھکتے۔  ایک دوسرے کی جگالی میں زندگی کا جوا ہارتے رہتے ہیں۔  یہ شاعر ایسا نہیں کرتا۔ اپنے ماضی اور حال کی حضوری میں شعر کہتا ہے۔  ان کے ہاں سراپا نگاری، خطابات، القابات، تصنع نام کو نہیں بلکہ معاملاتِ زندگی کے بارے میں ایک واضح ردِ عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔  شاعر اپنی بیتی کے اونے پونے جاننے کو عجیب حزنیہ کیفیت میں بیان کرتا نظر آتا ہے۔  اس شاعری میں دکھوں کی نمائش کا احساس نہیں ہوتا بلکہ دل شکستوں کے لیے ہمدمی کا احساس دامنِ دل کے قریب ٹھہرتا ہے۔

 پریشاں حال، ویراں دل، گریباں چاک رہتے ہیں

 جہاں میں ہم بھی رہتے ہیں مگر کیا خاک رہتے ہیں

 خوشی کیسی کہاں کا غم بس اتنا جانتے ہیں ہم

 خوشی کی جستجو کرتے ہیں اور غم ناک رہتے ہیں

 کوئی بھی روپ دھاریں، ہیں وہی لیل و نہار اپنے

 کہیں بھی ہم چلے جائیں تہِ افلاک رہتے ہیں

 کہیں گر جشن ہوتے ہیں کسی کا کیا سنورتا ہے

 کسی کا کیا بگڑتا ہے جو ہم غم ناک رہتے ہیں

 ۔ کوئے ملامت میں بعض غزلیں تین تین چار چار اشعار پر بھی مشتمل ہیں۔  اس کا مطلب اس سے سوا کچھ اور نہیں کہ شاعر قافیہ پیمائی نہیں کرنا چاہتا۔ جہاں جس جگہ خیال نے ساتھ چھوڑا شاعر نے کلام کو موقوف کر دیا۔ اس توقف نے اس شاعری کو تمکنت عطا کی ہے۔  یہ شاعر اپنے معاصرین میں وقار کے ساتھ کھڑا ہے۔  انجم رومانی اپنے کلام کی کاٹ کے حوالے سے اپنے معاصر شعرا ناصر کاظمی، احمد مشتاق، ظفر اقبال کے بہت قریب بھلے نہ ہو زیادہ دوری پر بھی نہیں ہے۔  بس ان پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ کم پڑھا گیا۔ شاید ان کی شاعری بھی اُس تواتر سے چھپ کر سامنے نہیں آتی رہی جس رفتار سے درج بالا شعرا کا کلام سامنے آتا رہا ہے۔  ان کا کلام مقدار میں اگرچہ کم ہے لیکن معیار میں پست ہر گز نہیں۔  ان کے اشعار میں طنز کی چبھن میں ہلا کے رکھ دینے والے خصائص نظر آتے ہیں جو کہیں کہیں انھیں اکبر الہ آبادی کے قریب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔  بعض غزلوں میں تفکر غالب سے ان کی قربت کا پتا دیتا ہے اور ملت سے لگاؤ ¿ اقبال کی یاد بنتا نظر آتا ہے۔  ان کی شاعری میں غم تو ہے مگر یہ شاعری غمگین کرتی نظر نہیں آتی۔ تعقل موجود ہے مگر سطح پر دکھائی نہیں دیتا۔

 وہ چاہتے ہیں لب پہ ہمارے فغاں نہ ہو

 کیا کیجیے کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو

 منظور ہر عذاب ہمیں، لیکن اے خدا

 کوئی زبان رکھتے ہوئے بے زباں نہ ہو

 اے دل! شکایتِ غمِ ایام تا بہ کے

 وہ سرزمیں کہاں ہے جہاں آسماں نہ ہو

 تنہائی ہو وبال نہ ہو گر ترا خیال

 بے جان انجمن ہو اگر تو وہاں نہ ہو

 کیا کیجیے نہ کیجیے گر ترکِ آرزو

 جب اور کوئی صورتِ آرامِ جاں نہ ہو

 انجم ہے تیرگی کا سماں دل کے آس پاس

 ہاں!  دیکھنا تو سایہ ¿ عمرِ رواں نہ ہو

 ۔ انجم رومانی کے شعری سرمائے میں غزل، نظم، نعت، تراجم کی ایسی باوقار دنیا دیکھنے کو ملتی ہے جو کم کم شاعروں کے حصے میں آئی۔ انجم رومانی نعت میں رائج بیان کے سلیقوں سے ہٹ کر شعر لکھتے ہیں۔  وہ پیغمبر کی ذات سے والہانہ لگاؤ ¿ رکھتے ہیں۔  اُن کے ہاں نعت نگاری رسم نہیں بلکہ طرزِ زندگی ہے اور اپنا طرزِ زیست کس کو پیارا نہیں ہوتا۔

 تسلیم اس کو اہلِ خلافت نہ کیجیے

 فاسق کے ہاتھ پر کبھی بیعت نہ کیجیے

 جس کو تمیز ہو نہ حرام و ہلال کی

 ہرگز اُس اہرمن کی اطاعت نہ کیجیے

 یا ظلم کے خلاف صدا کیجیے بلند

 یا شاہِ کربلا سے روایت نہ کیجیے

 یا سر بہ کف نکلیے پئے آبروے دیں

 یا ذکرِ اعتزازِ شہادت نہ کیجیے

 ہو جائے جب یقیں کہ یہی ہے رہِ فلاح

 جاں دیجیے پھر اس میں سیاست نہ کیجیے

 انجم رہی ہو جس سے محبت رسول کو

 کیوں کر اُس آدمی سے محبت نہ کیجیے

 ان نعتوں سے ایک آئینِ زندگی ملتا ہے جس کے کاخ و کو نبی کریم کے اوصافِ حمیدہ سے استوار کیے گئے ہیں۔  جس میں انسانیت کے لیے خیر ہے، فلاح ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2