چیئرمین سینٹ کی تبدیلی اور سیاست؟


حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی جانب سے بننے والی رہبر کمیٹی نے نو جولائی کو سینٹ میں موجودہ چئیرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے اور حزب اختلاف کی جانب سے گیارہ جولائی کو متفقہ طور پر امیدوار چیئرمین سینٹ کا نام سامنے لانے کا اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ہونیوالے اجلاس میں 25 جولائی کو موجودہ حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں 2018 ء کے الیکشن میں ہونیوالی مبینہ دھاندلی کے خلاف مشترکہ جلسے اور پشاور میں ملین مارچ کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

تا دم تحریر حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سینٹ چیئرمین کا امیدوار پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن سے ہوگا منظوری دیے جانے کے بعد راجہ ظفر الحق اور مصدق ملک کے علاؤہ ن لیگ نے دیگر ناموں پر مشاورت شروع کر دی ہے ذرائع کے مطابق رہبر کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی طے پایا ہے کہ اگر ن لیگ کا امیدوار کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا عہدہ چھوڑ دے گی۔ اب موجودہ چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے درخواست پر ایک چوتھائی ممبران سینٹ کے دستخط ہونا ضروری ہیں جبکہ اس سلسلے میں اپوزیشن ضرور چاہے گی جب تحریک عدم اعتماد کے لئے سیکرٹریٹ میں درخواست جمع کروائی جائے تو تمام اپوزیشن سینٹ ممبران کے اس درخواست پر دستخط موجود ہوں اور اس سلسلے میں حزب اختلاف نے اپنے ممبران سینٹ سے رابطے کرنا بھی شروع کردیے ہیں۔

دوسری جانب حکومت اور اس کے اتحادیوں نے موجودہ چیئرمین سینٹ کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے بلکہ حزب اختلاف کی جانب سے لائی جانیوالی ممکنہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے یقیننا عددی و نفسیاتی برتری حاصل کرنے کے لئے جوڑ توڑ بھی کرے گی۔ اب حکومت اور اپوزیشن کس حد تک ممبران سینٹ کو اپنے دام میں لا پاتے ہیں اس کا فیصلے کے نتائج چند دن کی مسافت پر ہیں۔ ملک میں سینٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 59 کے تحت ہوتے ہیں سینٹ دو ایوانی مقننہ کا اہم اور اعلی حصہ ہے سینٹ کے انتخابات ہر تین سال بعد کروائے جاتے ہیں۔

1971 ء میں جب مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا تھا تو اس کے دولخت ہونے کی دو اہم وجوہات میں سے ایک وجہ یہ تھی حکومتیں چھوٹے صوبوں پر توجہ نہیں دیتی تھیں پاکستان میں سینٹ کے قیام کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ چھوٹے صوبوں کو نمائندگی مل سکے۔ اس وقت سینٹ میں 104 ممبران میں سے اپوزیشن کے پاس 67 ووٹرز ہیں جبکہ تحریک کی کامیابی کے لئے 53 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے دیکھا جائے تو عدم اعتماد تحریک کی صورت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑا اعصاب شکن مقابلہ ہے۔

سینٹ کا قیام جب عمل میں لایا گیا تو اس کے آغاز میں ممبران کی تعداد 45 تھی 1977 ء میں اس کے ممبران کی تعداد بڑحا کر 63 کردی گئی 1985 ء میں اس کے ممبران کی تعداد 87 ہو گئی۔ جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اس کی حکومت نے لیگل فریم ورک آرڈر 2002 ء کے تحت اس کے ارکان کی تعداد 100 کر دی پھر جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو حکومت نے انیسویں ترمیم کے ذریعے چاروں صوبائی اسمبلیوں سے ایک ایک اقلیتی ممبر لے کر اس کے ارکان کی تعداد 104 کردی اب سینٹ میں ارکان کی تعداد ایک سو چار ہے۔

اب اگر اپوزیشن موجودہ چئیرمین سینٹ کے مقابلے میں عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہو پاتی ہے اور اس کے سینٹ میں موجود ارکان اپنی مکمل حمایت کا یقین دلاتے ہوئے صادق سنجرانی کے خلاف ووٹ کرتے ہیں تو پھر سینٹ میں ان ہاؤس تبدیلی کو روکنا حکومت کے لئے بہت مشکل ہو جائے گا۔ لیکن حالات کا زائچہ اپوزیشن کے لئے بھی سب اچھا کی نفی کرتا نظر آرہا ہے کیونکہ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ اپوزیشن کا متفقہ چیئرمین سینٹ کامیاب ہو پائے اگر اپوزیشن کا چیئرمین سینٹ کامیاب ہو گیا تو سینٹ میں حکومت کے لئے نہ صرف مشکلات پیدا ہو جائیں گی بلکہ اپوزیشن کے ہاتھ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کا سنہری موقع بھی آجائے گا۔

اس لئے حکومت ہر حال میں اس تحریک کو ناکام بنانے کے لئے پوری کوشش کرے گی جس کا حکومتی ترجمان برملا اظہار کر چکے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹے گی۔ اس ساری سیاسی فضا میں میں سمجھتا ہوں چھانگا مانگا کی سیاست کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گی چھانگا مانگا کی سیاست کے تناظر میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلی کے حصول کے لئے چھانگا مانگا کے پر فضاء مقام پر ارکان اسمبلی کی سیاسی منڈی سجائی تھی اس وقت کے حالات بتاتے ہیں کہ پس پردہ خفیہ طاقت بے نظیر بھٹو کو کلی طور پر اختیارات کا منبع دیکھنے کی متمنی نہ تھی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان جب بھی اقتدار کی رسہ کشی کا رن پڑا تو چھانگا مانگا کی سیاست کا بہت عمل دخل رہا اب بھی چونکہ حکومت کے پاس صادق سنجرانی کی سینٹ چیئرمین شپ بچانے کے لئے سینٹ میں ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود نہیں اس لئے چھانگا مانگا کی سیاست کے اثرات اپوزیشن ارکان پر مرتب ہوں گے اور حکومت مطلوبہ تعداد پوری کرنے کے لئے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپوزیشن کے ارکان کے ساتھ معاملات طے کرنے کی پوری کوشش کرے گی اور ہو سکتا ہے ایسے اپوزیشن کے ارکان حکومت کے پلڑے میں جا بیٹھیں اور اس بیانیے کے ساتھ حکومت کا ساتھ دیں کہ وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام نہیں چاہتے اور اس بات کا قوی امکان بھی ہے حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کی تحریک ناکامی سے دوچار ہو جائے۔

موجودہ ملکی و سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت اپوزیشن کی ٹاپ لیڈر شپ کرپشن اور منی لانڈرنگ چارجز کے عوض بنائے جانیوالے مقدمات میں جیل کے اندر ہے اور اب تک اپوزیشن کی جانب سے بنائے جانے والے اتحاد حکومت کو دباؤ میں نہیں لا سکے بلکہ نیب نے احتساب کا عمل مزیڈ تیز کر کے دیگر سیاسی قیادت کو بھی گرفتار کر نا شروع کر دیاہے جس کے باعث جہاں اپوزیشن کی سیاسی پوزیشن کو ابھی تک استحکام نہیں ملا وہیں اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی کارکن بھی سیاسی قیادت کی گرفتاری پر مایوسی کا شکار ہیں۔

اگر اس بار اپوزیشن سینٹ میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یقیننا جہاں اپوزیشن کو حکومت کے لئے ٹف ٹائم دینا آسان ہو جائے گا وہیں سیاسی کارکنان کے اندر بھی اپنی موجودہ سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑا ہونے کو تحریک ملے گی اگر اپوزیشن ناکام ہوتی ہے تو پھر اپوزیشن کے غبارے سے رہی سہی ہوا بھی نکل جائے گی۔ اب عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اپوزیشن کے لئے سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ اپنے ارکان کو ہارس ٹریڈنگ سے کیسے بچا پاتی ہے۔

اس سارے سیاسی کھیل میں حکومت یا اپوزیشن میں سے کون زیادہ زیرک ثابت ہوتا ہے یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن یہ وقت ضرور بتا دے گا کہ کون نظریات پر اور کون نظریہ ضرورت کی سرحد پر کھڑا ہے ضمیر فروشی کی سیاست پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں بس فرق اتنا ہے کہ کوئی زر کے ترازو میں تل کر نیلام ہوتا ہے اور کسی کو عہدہ تفویض کر کے اس کی قیمت چکا دی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).