پاکستانی صحافت۔ توبہ توبہ


2002 کے بعد پاکستانی میڈیا کو ایک نئی شکل ملی، الیکٹرانک میڈیا کا ایک نئے دورکا آغاز ہوا اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا ترقی پاتا گیا۔ ہمارے یہاں صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اور جمہوری ممالک میں صحافت کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ملک کو ترقی یافتہ، خوشحال، سیاسی و سماجی لحاظ سے طاقتور بنانے کے لئے صحافت کو اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھانے کی ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا جب پرنٹ میڈیا عوام میں آگاہی فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ سمجھا تھا اور صحافی سارا دن کی محنت اور بھاگ دوڑ کے بعد اخبار میں خبرلگانے کے لئے خبرکو تلاش کرنے میں جان تک لگا دیتے تھے اور خبر بھی ایسی مستند کہ سوال اٹھانا ممکن نہ رہتا تھا مگر پھر الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد صحافت کے شعبے میں انقلاب برپا ہو کررہ گیا اورالیکٹرانک میڈیا کی اس تبدیلی کی وجہ سے صحافت میں خبروں کے حصول میں تیزی آگئی۔

جہاں رپوررٹز کی جیب میں قلم اور ہاتھ میں ڈائری ہوا کرتی تھی وہاں اب کے رپورٹر کے ہاتھ میں موبائل فون اور پاور بنک دیکھ کے اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ موصوف کا تعلق صحافت سے ہے۔ اور اس نئے رجحان نے رپورٹراورخبر دونوں کی ہی شکل بد ل کر رکھ دی ہے، اور اس لئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آج پاکستانی میڈیا کا جویہ حال ہے اس پر اللہ رحم کرے۔

آج کل پاکستان میں جتنے پرائیوٹ نیوز چیلنلز کھل چکے ہیں ان کا معیاردن بدن اتنا ہی کمزور ہوتا جارہا ہے اوران نیوز چینلز نے ریٹنگ کے چکروں میں خبروں کا معیار اس قدر گرا دیا ہے کہ خبر سن کر ہنسی آتی ہے۔ آپ خود بھی تویہ بد لتی ہو ئی صورتحال دیکھتے ہی ہو نگے کہ ہمارا میڈیا بعض اوقات ایسی خبریں چلا رہا ہوتا ہے کہ افسوس ہوتا ہے کہ خبر کا معیار کیا سے کیا ہوتا جارہا ہے میں مثال کے طور پرآپ کو بتاتی ہوں کہ پچھلے دنوں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز منڈی بہاوالدین جلسہ کر نے گئی تو پاکستان کے سب سے بڑے نیوز چینل نے خبر لگای کہ ٌمنڈی بہاوالدین جاتے ہوئے مریم نواز کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیاٌ۔

اسی طرح اگرکوئی اہم میچ یا پھر پی ایس ایل کے میچز ہوں تو ہمارے رپورٹرزحضرات چڑیا گھرکا رخ کرتے ہیں اور پھر میچ جیتنے یا ہارنے کا فیصلہ معصوم جانوروں جیسے کہ ہاتھی، شیر سے کرواتے ہیں ویسے میں سوچتی ہوں کہ معصوم جانور تو کر کٹ کی الف ب سے واقف نہیں اور نہ ہی وہ کرکٹ دیکھنے کا شوق ر کھتے ہیں تووہ کیسے ہار جیت کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ ہررپورٹرز کی اپنی انو کھی منطق ہوتی ہے، جیسے کہ ایک ہمارے سینیئر رپورٹر نے تو حد ہی کر دی انسان تو انسان معصوم جانوروں کو بھی نہ بخشا اور مائیک لئے پہنچ گئے بھینسوں کے پاس اوراُن کا انٹرویو کر ڈالا۔

اسی طرح پچھلے دنوں بارشوں کے موسم کے آغازمیں ایک رپورٹر نے اپنی جان پر کھیل کر سیلابی ریلے میں کھڑے ہو کر رپورٹنگ کی لوگوں کومحظوظ کرنے کے چکر میں اور رینٹنگ کے لئے سب کیا مگر سوال یہ ہے کہ اگروہ اپنی جان گنوا دیتا تو ذمہ دار کون ہوتا؟ ادارہ یا پھر وہ جنونی رپورٹر خود؟ ؟ کیا اس میں اس کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا؟ اورایک رپورٹر نے تو انتہا ہی کر دی لیجنڈ عبدالستارایدھی کی وفات پر اتنے حد سے گزرے کہ مرحوم کی قبر سے ہی بیپر دے دیا۔ مطلب کے رینٹنگ کے لئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح ریپ کے کیسز میں شامل خواتین کی تصاویر بغیر ٌدھندلاٌکئے انکودیکھا دیا جاتاہے اور کوئی بھی ان کو پو چھنے والا نہیں ہوتا۔

خیراس سب کے ساتھ ساتھ دوسری طرف میڈیا پر سنسر شپ کا بھی شورسنائی دے رہا ہے اسی حوالے سے پچھلے دنوں ایک بڑے صحافی کا سابق صدر کے ساتھ انٹرویو نشر ہونے سے روک دیا گیا، جب وہ اینکراس پروگرام کے متعلق وضاحت کر نے کے لئے دوسرے پروگرام میں بطور مہمان شرکت کرنے والے تھے اور اس پروگرام کو بھی روک دیا گیا اوراگر کوئی چینل یا صحافی کوئی سنجیدہ خبرنشرکربھی دیتا ہے تو اس چینل یا اینکر کو پابندیوں اورجرمانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

زیرعتاب صحافیوں کو نشانہ بنانے کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ سرکاری بیانیے کی مخالفت کرتے نیوزچینلز کو کیبل پرآگے پیچھے کرکے اورمخالف سمجھی جانے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کئی کالم نویسوں نے شکایت کی ہے کہ ان کی تحریریں روکی جارہی ہیں۔ جب کوئی صحافی سٹوری کرتا ہے تو سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دباؤ آتا ہے کہ آپ ہمارے خلاف رپورٹنگ کررہے ہیں۔ کیا ان سب کے باوجود پاکستان کا میڈیا آزاد میڈیا تصور کیا جاتا ہے اورمجھے خودبھی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید انہی پابندیوں کی بنا پر صحافی سنجیدہ نوعیت کی اسٹویرز کی طرف نہیں جاتے اور پھراسی طرح کی غیرضروری خبروں سے خانہ پوری کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔

آخر میں کہنا چاہوں گی کہ میڈیا کے وجود کی ہمارے معاشرے میں اشد ضرورت ہے اور ہمارے معاشرے اور میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اسی کی بناءپر ہم پوری دنیا سے روابط قائم کیے ہوئے ہیں۔ میڈیا کو بہتر سے بہتر بنانا ہوگا تاکہ وہ اپنے کردار کو بہتر طر یقے سے ادا کر سکے اور دوسری طرف میڈیا کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ میڈیا ہی ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).