تباہی کی طرف بڑھتی تحریک انصاف کی حکومت


اس پس منظر میں بجا طور سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا جج ارشد ملک پر مریم نواز کے الزامات سسٹم اور اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔ یا عمران خان کے بقول این آر او لینے کا ایک طریقہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب بھی مقبول سیاسی لیڈروں پر الزام تراشی کی جائے گی اور مملکت کے اداروں کو استعمال کرتے ہوئے انہیں سزائیں دلوانے اور خاموش کروانے کی کوشش ہوگی تو رد عمل میں مخالف سیاسی عناصر بھی ’بلیک میل کرنے یا دباؤ‘ ڈالنے کا ہر حربہ استعمال کریں گے۔ جج ارشد ملک کے ویڈیو کو منظر عام پر لانا ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ اسی کا دوسرا پہلو چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اقدام ہے۔ اس تحریک کے ذریعے اپوزیشن حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ اس سیاسی لڑائی میں اب دفاعی جنگ کی بجائے حملہ کرنے اور حکومت کو پیچھے دھکیلنے کی حکمت عملی اختیار کررہی ہے۔ حکومت کو اس صورت حال کا پوری طرح ادراک ہے۔ اسی لئے اتوار کے روز منڈی بہاؤالدین میں مریم نواز کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اسے ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن کیا سیاسی سرخروئی کا یہی راستہ ہے؟

سوال ہے کہ کیا حکومت سیاست اور بنیادی جمہوری و قانونی اصولوں کو الگ کرنے اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کرنے یا طرز عمل اختیار کرنے کی کوشش کرے گی۔ ابھی تک حکومت کے کسی اقدام سے ایسا تاثر نہیں ملتا۔ نواز شریف یا آصف زرداری نے ہو سکتا ہے کہ بدعنوانی کی ہو یا اقتدار سے فائدہ اٹھا کر ذاتی کاروبار کو توسیع دی ہو لیکن جب ملک کے سارے بیرونی قرضوں کو اپوزیشن لیڈروں کی ’چوری‘ قرار دیا جائے گا تو حکومت کی صداقت اور اپوزیشن لیڈروں کی بدعنوانی پر یقین کرنے والا شخص بھی حیرت کا اظہار ضرور کرے گا۔ اسی کے ساتھ جب عدالتوں میں قانونی کارروائی پوری ہونے اور ملزموں کو قانون کے مطابق کیفر کردار تک پہنچنے کا انتظارکیے بغیر، سیاسی مخالفین کو دباؤ میں رکھنے کے لئے زیر سماعت مقدمات کا حوالہ دینا معمول بن جائے گا تو عدالتیں تماشہ گاہ سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں کرسکتیں۔

آج ایک طرف تین ٹی وی چینلز کی نشریات روکنے کے حوالے سے سوال سامنے آرہا تھا اور مریم نواز کی پریس کانفرنس دکھانے پر ملنے والے پیمرا نوٹس کی اصابت پر تشویش ظاہر کی جارہی تھی تو دوسری طرف وفاقی کابینہ

نے فیصلہ کیا ہے کہ گزشتہ دنوں جیو ٹی وی پر آصف زرداری کا انٹرویو نشر کرنے کی کوشش کا معاملہ پیمرا میں اٹھایا جائے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ پیمرا اگرچہ خود مختار ہے لیکن کسی زیر حراست ملزم کا انٹرویو نشر کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ جب سیاست اور قانونی حق کو یوں خلط ملط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو جمہوریت کی روح قرار پانے والی آزادی صحافت کو شدید ضعف پہنچے گا۔ وزیر تعلیم کے اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی مہذب معاشرہ کسی زیر حراست ملزم کو انٹرویو دینے کی اجازت نہیں دے سکتا تو وہ کسی حکومتی ادارے کو کسی عدالتی حکم یا قانونی طریقہ کار کے بغیر ٹی وی نشریات روکنے کا اختیار بھی نہیں دیتا۔ نہ ہی مہذب جمہوری معاشروں کے وزیر اعظم قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیتے ہیں اور وہ اسے ماننے پر مجبور بھی ہوجاتاہے۔

حکومت اگر ملکی نظام کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوششیں ترک نہیں کرے گی تو اپوزیشن بھی وہی ہتھکنڈے اختیار کرے گی۔ اس چپقلش میں ادارے بھی زد پر آئیں گے اور انصاف اور آزادیوں کا خون بھی ہوگا۔ فیصلہ تو عمران خان کو ہی کرنا ہے۔ کہ وہ جمہوری عمل کو با اعتبار بنا نا چاہتے ہیں یا ضد، انتقام اور وقتی سیاسی فائدے کے لئے ملک کو تصادم کے اس مقام تک لے جانا چاہتے ہیں جو سب سے پہلے خود ان کے زوال کا پہلا زینہ ثابت ہوگا۔ اس خطرہ کی نشانیاں نوشتہ دیوار ہیں لیکن اقتدار کا نشہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali