سازش 1951 اور مائنس ون


لاہور سے گوجرانوالہ تک ستاسی کلومیٹر کا سفر دو واضح حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سفر کا پہلا تہائی موٹروے پر آرام دہ اور پرسکون اور بقیہ دو تہائی جی ٹی روڈ کی بے ہنگم ٹریفک اور خراب راستے پر مشتعمل تھا۔ حسن معراج کا لکھا ہوا ڈرامہ سازش 1951 بھی ہمارے موٹر وے اور جی ٹی روڈ کے اس سفر کی طرح ”کبھی خوشی کبھی غم والے“ دو متضاد تجربات سے بھرپور تھا جو گوجرانوالہ کے مقامی آڈیٹوریم میں پیش کیا گیا

ڈرامے میں بھی حاضرین کو واضح طور پر تقسیم کا سامنا تھا۔ اسٹیج کی دائیں جانب کہانی کمرہ عدالت سے شروع ہوتی ہے جہاں 23 فروری کی رات ایک ڈرائنگ روم میں مبینہ طور پر حکومت وقت کے خلاف سازش تیار کرنے والوں کو کٹہرے میں جرح کا سامنا ہے اور اسٹیج کی بائیں جانب 2019 کے نیا پاکستان کی سیج سجی تھی جس پر حسین نامی بچے نے موجودہ دور کی خوبصورت نمائندگی کی۔ کہانی کے مختلف کردار اسٹیج کی ایک جانب بروہی صاحب کے تیز اور تند سوالوں کا سامنا کرتے ہیں اور پھر خراماں خراماں چلتے ہوئے حسین اور اس کی والدہ کو ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اپنی سازش کے اسرار و رموز اور توجیہات سے یوں آگاہ کرتے ہیں گویا کوئی کسی نئی سازش کے چکر میں ہوں۔

ڈرامے کی خوبصورت کہانی، پختہ اداکاری اور جاندار مکالمہ بازی نے اس کھیل کو دیکھنا ایک شاندار تجربہ بنا دیا تاہم یہ محض ایک تفریحی کھیل نہیں بلکہ ہماری تاریخ کے ایک چونکا دینے والے باب کا حصہ ہے جس پر بہت کم لکھا، سنا اور کہا گیا اس لئے یہ ضروری ہے اس تاریخی کم سیاسی کم معاشرتی کھیل کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے۔

اگر سازش 1951 صرف اس ڈرامائی سازش تک محدود رہتا جسے اس وقت کے قریب سترہ اخبارات نے ملک اور قوم کے خلاف ایک گھناؤنی سازش قرار دیا تھا تو دیکھنے والے اس کو اپنی تاریخ کا ایک باب سمجھ کر اپنے فہم کے مطابق اس کے سیاہ یا سفید ہونے کا فیصلہ صادر کرتے۔ لیکن جب کھیل کی کہانی سازش کی سرحدوں کو پھلانگتی ہوئی ایک ہی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے لگ جاتی ہے تو۔ یہ تاریخی سے زیادہ ایک توصیفی کھیل لگنے لگتا ہے

سب سے پہلے تو کھیل دیکھنے والے حاضرین کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا یہ سازش ایک قابل ستائش کارنامہ تھی یا ایک قابل مذمت اور قبیح فعل تھا۔ اس سوال کا جواب کھیل میں جنرل صاحب اور میجر اسحاق کے کرداروں نے خود بتا دیا کے یہ ایک غلط قدم تھا جس پر بظاھر انھیں پچھتاوا تھا۔ پھر یہ کیوں کر ممکن ہو کے اسی سازش سے جڑے ایک اور اہم کردار اور سازش میں برابر کے شریک فیض صاحب کو معلوم وجوہات کی بنیاد پر بھرپور استثنیٰ دے دیا جائے اور ان کی مظلوم بیگم اور بیٹیوں تک کو متاثرین میں دکھایا جاتا ہے جن پر یہ افتاد خود فیض صاحب کی دانستہ یا نادانستہ غلطی سے آن پڑی تھی۔ ہماری ذاتی راے میں ایک ہی سازش سے جڑے کرداروں کے ساتھ اتنا یک طرفہ سلوک نہیں ہونا چاہے تھا۔ سونے پے سہاگہ یہ کہ اس ایک ناکام اور نکمی سازش کے ڈانڈے اور اثرات تقریباً پون صدی  بعد بلکہ آنے والے تمام غیر جمہوری ادوار سے ملانا بھی دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے

سازش کے ایک اہم کردار کے بقول اگر یہ سازش کامیاب ہو جاتی تو ہر طرف انارکی بھیل جاتی۔ اگر سازش 1951 ملک کے خلاف ایک گھناوونا عمل تھا جس کی کامیابی کی صورت میں فساد کا خطرہ تھا تو پھر فیض احمد فیض سمیت اس سازش کے تمام کردار کوئی ہیرو نہیں بلکہ ولن تھے۔ یہ سازش ایک سول حکومت کے خلاف تھی جس کے مرتکب افراد کو دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی قانون کے مطابق سزا ملنی تھی سو ملی

اس بات پر البتہ بحث ہو سکتی ہے کے فیض صاحب کا کردار کس حد تک تھا کیا وہ اس سارے کھیل میں بالکل بے قصور تھے یا محض غلط فہمی یا تعصب کی بنیاد پر دھر لئے گئے تھے۔ اس سلسلے میں تاریخ اور سازش ڈرامہ دونوں ہی خاموش ہیں

۔ زیادہ تکلیف دہ حصہ وہ ہے جب ڈرامے کے آخر میں ہماری بل کھاتی ہوئی تاریخ کی وہ حقیقت بیان کی جاتی ہے جو چکرا دینے والی ہے کہ سازش سے جڑے کئی اہم کردار آنے والے جمہوری حکمرانوں کے مشیر اور قابل اعتماد ٹھرے اور اونچے عھدوں تک بھی پہنچے

ڈرامے کے بعد کئی لوگوں کی آرا پڑھ کر یوں لگا کے وہ مائنس ون کے فارمولے پر عمل چاہتے ہیں میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھو۔ یعنی سب اس سازش میں ولن تھے بس فیض صاحب کو چھوڑ کر۔ یہ بھی ہماری شخصیت پسندی کی معراج ہے کے معاف کرنے پر آئیں تو بڑے سے بڑے جرم بھی معاف ورنہ چھوٹی سی لغزش بھی قابل دست اندازی۔ اس بات کی امید ہے کہ اب سازش 1951 کے موضوع پر کوئی فلم بھی بنے گی جو جس میں سازش کے کردار زیادہ بے رحمی سے بے نقاب ہوسکیں گے اور جہاں پر مائنس ون کی احتیاط بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھی جائے گی۔ حسن نے یہ خوبصورت کھیل لکھ کر یقیناً ایک پنڈورا باکس کھول دیا ہے جس میں سے نکلنے والی حقیقتوں کو نئی نسل پرکھ سکتی ہے۔ سازش 1951 قابل مذمت تھی اور رہے گی اور اس سے جڑا ہرچھوٹا بڑا کردار تاریخ کے سامنے جواب دہ رہے گا

نوٹ : جس ڈرامے کو دیکھنے کے لئے ہال کی سیڑھیوں پر مائیں اپنے چھوٹے بچوں سمیت بیٹھی نظر آئیں اس ڈرامے کو کامیابی کے لئے  یقیناً کسی اور سند کی ضرورت نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).