مراکشی اشرافیہ کی دس ہزار سے زیادہ متروکہ حویلیاں


نوآبادیات اور اسُ کی نفسیات کا مطالعہ اک دلچسپ مضمون ہے۔ مراکش کی حالیہ سیاحت اور وہاں کے علماء سے گفتگو نے مراکش کے دور نوآبادیات کے نئے زاویوں سے آگاہ کیا۔ شمالی افریقہ کا علاقہ تیونس، الجزائر اور مراکش اجتماعی طور پر المغرب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پر رہنے والوں کی اکثریت بربر قبائل سے تعلق رکھتی ہے مسلمانوں کے علاوہ اس خطے میں یہودی اور عیسائی بھی قدیم زمانے سے آباد ہیں۔ اس علاقے کے قبائلی عمائدین کے اسلام قبول کرنے کے بعد قبائلی سرداروں کے ماتحت ان کی رعایا نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا اس طرح یہ علاقے خلافت بنی امیہ کے زیر حکومت آگئے تھے۔

اس کے باوجود کہ مراکش کے اکثر لوگ مسلمان ہوچکے تھے لیکن پھر بھی خلفاء دوراں نے ان پر جذیہ کا ٹیکس لگایا ہوا تھا۔ یہ ٹیکس شرعی طور پر صرف غیر مسلمُ شہریوں پر ہی نافذ کیا جاسکتا ہے۔ المغرب کے بربر قبائل بہت بہادر اور جنگی صلاحیتوں میں خداد داد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ان کی جانبازی کی صلاحیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خلفاء کی افواج جنگی مہمات میں ان کو ہمیشہ اگلی صفوں میں رکھتی تھیں۔ اس حکمت عملی سے عربوں کا جانی نقصان کم ہوتا تھا۔

ان نا انصافیوں کو بربر قبائل نے محسوس کرلیا تھا۔ آخرکار انہوں نے مراکش کے ساحلی شہر ٹینجر میں خلافت امیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ بربر قبائل کو اس بات پر شدید غصہ تھا کہ مسلمان ہونے کے باوجود ان پر ذمیوں والا ٹیکس کیوں نافذ کیا ہوا ہے۔ خلیفہ ولید اوّل اور سلیمان نے جزیے کے نام پر مراکشی مسلمانوں سے بھاری ٹیکس وصول کیا تھا۔ آخر کار کامیاب بغاوت کے بعد مراکش کے قبائل نے خالد ابن حامد الزانتی کو اپنا حاکم مقرر کردیا۔

عرب نوآبادیات کے بعد جب یوروپی نوآبادیات کا دور آیا تو نوآبادیاتی حکمت عملی کے تحت مقامی سرداروں کو اپنے ساتھ ملا کر ہسپانوی اور فرانسیسی نو آبادیاتی طاقتوں نے اس خطے پر غلبہ حاصل کرکے اپنے پٹھو حکمران مسلط کرنا شروع کردیے۔ یوں تو المغرب کے علاقے میں بربر حریت پسندوں نے بہت سی بغاوتیں کی لیکن محمد ابن عبدالکریم خطابی کی مسلح اور گوریلا جدوجہد تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنی کامیاب جدوجہد سے مراکش کے اک بڑے حصے کو آزاد کرواکر اس پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔

عبدالکریم کی گوریلا جنگی حکمت عملی کو ہوچی منہ اور چی گویرا نے بھی اپنی جدوجہد میں اک ماڈل کے طور پر استمعال کیاتھا۔ خطابی کی حکومت کو فرانس اور اسپین نے ایک بڑی مشترکہ فوجی کارروائی سے ختم کرڈالا تھا جس میں ہوائی طاقت اور کیمیائی ہتھیاروں کا بھی بے دریغ استمعال کیا گیا تھا۔ 1957 میں فرانس اور اسپین نے رفتہ رفتہ مراکش کو آزاد کرنا شروع کردیا اور آخر کار تین مارچ 1961 کو اقتدار بادشاہ حسن دوئم کے حوالے کردیا۔ نوآبادیات کے سہولت کار قبائلی عمائدین اپنی قوم کی حریت پسندانہ روش سے خوفزدہ تھے۔ ان کی درخواست پر فرانس نے اپنی اکثر سہولت کار اشرافیہ کو فرانسیسی شہریت دے کر فرانس میں آباد کردیا۔ مراکش سے فرانس میں جا بسنے والے ان ارکان اشرافیہ کی حویلیاں آج بھی خالی پڑی ہیں۔

کاش پاکستان سے بھی برطانوی سرکار اپنی سہولت کار اشرافیہ کو برطانوی شہریت دے کر پاکستان سے لے جاتی اس طرح پاکستان کے عوام کی بھی اس نام نہاد اشرافیہ سے جان چھٹ جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).