آئنہ نما کی آئینہ کہانیاں


اگر کسی افسانہ نگار کو یہ ادراک ہو جائے، کہ اُس کے اندر قدرت نے کہانی کہنے کا کون سا ٹول رکھ دیا ہے، تو پھر وہ کہانی کار اِدھر اُدھر کی مارا ماری سے بچ جاتا ہے اور شروع ہی میں اس کے شہرِ ادراک میں، اُس کہانی کار کے لئے ایک راستہ بِچھ جاتا ہے، جہاں سفر کرتی کہانیاں، اُس کی چاپ سن لیتی ہیں۔ اُس سے یوں لپٹ جاتی ہیں، جیسے کوئی اپنے محبوب سے لپٹتا ہے۔ کہانیوں کی اِس لپٹا لپٹی میں اپنے پہلے افسانوی مجموعے ہی سے اِس خوش قسمت افسانہ نگار کی پہچان کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔

ظفر عمران بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں، جنہوں نے یہاں وہاں دیکھنے کی بجائے اپنے اندر اتر کر دیکھا تو انہیں مکالمہ نگاری کی صورت میں کہانی کہنے کا ایک ایسا مؤثر ٹول مل گیا، جس نے ان کے لئے کہانی کہنے کی راہ ہموار کر دی۔ مکالمہ نگاری ہی ان کی کہانیوں کی اساس، شناخت اور زادِ راہ ہے۔ انہوں نے منفرد نظر آنے کے لئے غیر ضروری تجربات کو دور سے سلام کیا اور قاری کے ہاتھ میں کتاب تھما کر اس پر اپنے کرداروں کی صورت میں مکالمہ نگاری کی بارش برسا دی۔ اور پھر اس برستی بارش میں کرداروں کی چھائی ست رنگی قوس و قزح سے ان کی کہانیوں کا چہرہ بنتا چلا گیا۔ اپنے تن من بھگوتے قاری کو یوں محسوس ہوا، جیسے وہ کسی طلسمی جزیرے پر اُتر آیا ہے، جہاں کہانی کی چھتریاں تانے کردار غول در غول اترے ہوئے ہیں اور فضا ان کے مکالموں سے گنگنا رہی ہے۔

کتاب صرف آن لائن آرڈر پر دستیاب ہے

ان کے افسانوں میں زندگی زندہ ہے اور سبھی کردار بھرپور زندگی جی رہے ہیں۔ نہ کوئی مرنا چاہتا ہے، نہ زندگی کی کٹھنائیوں سے گھبرا کر فرار ہونا چاہتا ہے۔ پتا نہیں ظفر عمران نے انہیں کس طرح سدھایا ہے کہ ہر کوئی اپنے ہونٹوں سے خاموشی کھرچ کر زندگی سے بھرپور مکالمہ کرنا چاہتا ہے، مایوسی کو جھاڑ کر جینا چاہتا ہے۔ چاہے وہ طوائف ہو، آوارگیوں کی دھند میں لپٹا ہوا مرد ہو یا معصومیت کی بکل مارے شریف انسان، بیوی ہو، محبوبہ ہو یا شاعر ادیب، سب کو زندگی کی تلاش ہے۔ یہاں تک کہ طوائف بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے، بلکہ افسانہ نگار نے طوائف پر ’’ایک پاکیزہ سی گنہ گار لڑکی‘‘ جیسے بھڑکتے ہوئے افسانے میں جوشیلی فضا باندھ کے ایسا کمال کر دکھایا ہے کہ مجال ہے جو کہیں سے انہوں نے منٹو کو جھانکنے بھی دیا ہو۔

افسانہ “اک حسینہ تھی، ’’ایک گدھا تھا اور رومان تھا‘‘ میں عورت کی جذباتی سسکاریاں اور رومان میں بھیگے مرد گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں صاف سنائی دیتی ہے۔

ظفر عمران جذبات و کیفیات کے اَن گنت لشکر لے کر قاری پر چڑھائی کرتے ہیں اور قاری کی باطنی سرزمین پر فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد ہی وہ واپس ہوتے ہیں۔ ’’اپسرا‘‘ جیسا چلبلا، آوارہ اور چست بیانیے کا کسا ہوا افسانہ لکھ کر، انہوں نے عورت کی شرافت بھری آوارگی، تسکین بھری بھوک اور طمانیت بھری محبت کی نفسیاتی جنگ لڑتی عورت دکھا کر اس کے ساحرانہ پس منظر میں کتنے ہی مردوں سے ملوایا ہے۔

پوری کتاب میں بہت دل کش افسانے، متحرک فضا اور کتنے ہی آئینے رکھ دیے گئے ہیں، جہاں رنگا رنگ پیراہن پہنے سماج صاف طور پر ننگا دکھائی دیتا ہے۔ ’’آئنہ نما‘‘ کا ہر افسانہ قاری سے دھڑکتی ہوئی گفتگو کرتا ہے، اسے اپنا سمجھتا ہے مگر کتاب کا واحد افسانہ ’’کار آمد‘‘ جو قاری سے کراہت بھری گفتگو شروع کر دیتا ہے، حیران کن طور پر یہ ایک ایسا افسانہ ثابت ہوا ہے جو بلیک ہیومر کی حدوں سے باہر نکلتا ہوا، کتاب کے عمومی مزاج کو کھا گیا ہے اور جس میں افسانہ نگار کی بجائے ظفر عمران خود داخل ہو کر جذباتی پن کے ہاتھوں قتل ہو گئے ہیں۔ اسی جذباتی پن کی وجہ سے گمان بھرے آسمانوں سے اترتے مقدس تخلیقی سلسلے کی بے حرمتی کر کے تخلیق کو جو منصب دیا گیا ہے، اس نے مجھے ذاتی طور پر بہت تکلیف پہنچائی ہے، جس کے لئے میں ’’آئنہ نما‘‘ کے تخلیق کار کو معاف نہیں کر سکتا۔

کتاب: آئنہ نما
مصنف: ظفر عمران
قیمت: روپے 399
کستوری پبلشنگ ہاوس، راول پنڈی۔
منگوانے کے لئے:
ایزی پیسا 03215598959
جاز کیش اور وٹس ایپ: 03009446803


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).