بیویاں غیر ہوتی ہیں اور بچے اپنا خون


یہ نہیں بتایا کہ بیچاری نرگس چند روز پہلے ہوئے سیزیرین سیکشن کے زخم کو ہاتھ سے سہارا دیے پبلک ٹرانسپورٹ میں ہسپتال جاتی تھی۔ وہاں بچے کے لیے اس کا دودھ نکالا جاتا تھا۔ اسے چند منٹ مشین میں پڑے بچے کو دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ وہ وہاں سے رونا شروع کرتی تھی اور گھر میں پہنچ کر بھی روتی رہتی تھی۔ میں جب فون کرتا تو کہتی بچے کی زندگی کے لیے دعا کیجیے گا۔

پھر جب پانچ سال کی رسمین کا بازو ٹوٹا تو میں بہت دیر کے بعد نرگس کے گھر پہنچا تھا جہاں سات برس کا اکیلا تمجید ڈیڑھ سال کے روتے ہوئے عافین کو سنبھال رہا تھا۔ یہ نہیں بتایا چونکہ تم داچا پہ تھی اس لیے میں صبح کے چھ بجے تک ہی وہاں رہا تھا۔ یہ کہ نرگس میرا اور تمہارا خیال کرتے ہوئے چھ بجے ہی لوٹ آئی تھی۔ بہادر بچی تمام عرصہ ہسپتال میں اکیلی رہی۔ میں اس کے پاس بھی نہیں جاتا تھا۔ ایک بار گیا تو وہ بیچاری پلاسٹر لگے بازو کے ساتھ کرسی پہ بیٹھی کھڑکی کے شیشے سے ہاہر دیکھتی میرا انتظار کر رہی تھی۔

آخر وہ بولی، تم مجھے یہ سب کیوں بتا رہے ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ سب اس لیے کہ یہ سب کچھ تمہاری محبت میں سہا۔ اس لیے کہ تمہیں دکھ نہ پہنچے۔ میری آواز تھوڑی سی بلند ہوئی تو ساشا اٹھ کے چلا آیا اور بولا دیکھو مرزا ہمارا معاشرہ بالکل اور طرح کا ہے۔ بڑی بیوی چھوٹی بیوی تمہارے ہاں ہوتی ہیں ہمارے ہاں نہیں۔ ساشا میں ماما سے پیار کرتا ہوں، بہت پیار کرتا ہوں، میں بولا تھا۔ یہ سن کے نینا اپنے آنسو چھپانے کے لیے بالکنی میں چلی گئی تھی۔ ساشانے جواب میں کہا، ہاں پیار کرتے ہو مگر ہوا بالکل ہی اور طرح۔ یہ کہہ کر وہ کمرے میں چلا گیا۔

نینا پھر سامنے دیوان پہ آ بیٹھی۔ میں نے پھر سے کہا کہ بارہ برس سے میں صبح و شام تمہارے پاس ہی رہا، اس کا مطلب کیا بالکل نہیں سمجھتی تم؟ اس لیے کہ یہ تم دونوں کے لیے آرام دہ رہا ہوگا، اس نے جواب میں کہا۔ میں نے غصے کو روکتے ہوئے کہا، دیکھو ایسے کرتے ہیں کہ مرتے دم تک اکٹھے رہتے ہیں۔ کوئی مرتے دم تک نہیں، تم چائے پیو، جو لینا ہے لو اور چلے جاؤ پلیز، مجھے تنگ مت کرو۔ اب ہمارے بیچ کچھ باقی نہیں رہا۔

ماں کا فیصلہ کن لہجہ سن کے ساشا پھر کچن میں آ گیا اور میرے سامنے دور دیوان کے ایک سرے پر بیٹھ کے بولا، میں نہ کوئی مذمت کرتا اورنہ ہی کچھ مزید کہنا چاہوں گا۔ بس اتنا کہ آپ دونوں عمر والے لوگ ہیں۔ ایک دوسرے کے اعصاب کیوں توڑتے ہو۔ دیکھو مرزا عورتیں بہت ہوتی ہیں مگر ہماری ماما ایک ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ اسے تکلیف پہنچے۔ تم مہربانی کرو، جو ماما نے فیصلہ کیا ہے، اس پر عمل کرو۔ اچھا ساشا ویسا ہی کریں گے، میں تمہیں بھی سمجھتا ہوں، میں نے کہا تو ساشا اٹھ کے ایک بار پھر کمرے میں چلا گیا۔

میں نے نینا کو بتایا کہ مجھے ایک تو ہیلتھ انشورنس کارڈ چاہیے، جس پہ اس نے کہا کہ جہاں تمہارے کاغذ ہوتے ہیں وہاں دیکھ لو، میں نے وہاں سے کچھ ہلایا تک نہیں۔ اور مجھے اپنے جاگر، ونڈ بریکر اور ایک اور چیز جو بھول گئی چاہییں بس۔ حبیب پاکستان سے لوٹ آئے تو اس کی گاڑی میں سامان اٹھا لے جاوں گا۔ یہ کہہ کے میں کمرے میں گیا، دراز نکالی اور بیڈ پر بیٹھ کے ہیلتھ کارڈ تلاش کرنا شروع کیا جو نہیں ملا۔ نینا سے کہا کہ جنوری میں تم اور میں اکٹھے جا کر اپنے دونوں کے کارڈ لائے تھے، تمہارے پاس ہی تھا۔

اس نے کہا کہ اپنے بریف کیس میں جا کے دیکھو۔ میں نے بتایا کہ گم شدہ چابی کے لیے اسے میں نے چھان مارا تھا، ایسا کوئی کارڈ نہیں ہے اس میں۔ اس نے اپنے تمام کاغذ چیک کیے مگر میرا کارڈ نہیں تھا۔ روسی میں کہا، نہیں ہے، میں نے نہیں لیا۔ مجھے نہیں معلوم کا متبادل یہ روسی فقرہ مجھے اچھا نہیں لگتا لیکن میں نے اس بار چمک کے یہ نہیں کہا کہ مجھے معلوم ہے تم نے نہیں لیا۔ بس اتنا کہا تلاش کرنا پھر سے۔ پھر اسے کہا میرے جاگر کہاں ہیں۔ اس نے جب جوتوں کے بند ڈبوں کے ڈھکن کھولے تو میں نے جاگرز کے علاوہ ایک جوڑا گرگابی اور ایک جوڑا چپل منتخب کرکے اسے کہا کہ انہیں کسی شاپنگ بیگ میں ڈال دے۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر ونڈ بریکر مانگے وہ بھی اس نے ایک بند ڈبے سے نکال کر ایک اور شاپنگ بیگ میں ڈال دیے۔

میں نے نکلنے سے پہلے ایک بار پھر کہا کہ مجھے گھر کی چابی دو میں یہاں بیٹھ کے اپنی آپ بیتی کا اگلا حصہ لکھنا چاہتا ہوں۔ یاد دلایا کہ اس گھر میں بیٹھ کے ہی میں نے چار کتابیں لکھیں، تم نے میری مدد کی تبھی لکھ پایا تھا۔ وہ ایک بار پھر منہ موڑ کر اپنے آنسو چھپانے لگی اور بولی کہ میرے پاس اضافی چابی نہیں، کہاں سے دوں تمہیں۔

میں دہلیز پہ جا کے اپنے بوٹ پہننے لگا۔ وہ کچن میں کھڑی رہی۔ میں نے کہا دونوں شاپنگ بیگ اٹھا دو۔ اس نے اٹھا کے وہ آگے بڑھا دیے۔ میں نے کہا یہاں آو۔ بولی جاؤ۔ میں نے کہا میں تمہیں چومنا چاہتا ہوں۔ کوئی ضرورت نہیں مجھے چومنے کی، وہ بولی۔ وہ جو 28 برس ہر بار میرے گھر سے نکلنے پر میرا گال چوم کے رخصت کرتی تھی، پانچ قدم دور کھڑی تھی۔ دروازہ تو بند کر لو، میں نے کہا۔ کر لوں گی بعد میں۔

میں لفٹ سے اتر کر جب سڑک پر پہنچا تو میرے کندھے ڈھلکے ہوئے تھے۔ میں خود کو تھکا ہوا بے منزل مسافر خیال کر رہا تھا۔ رونے کو جی کر رہا تھا۔ زیر زمین ریلوے سٹیشن تک پہنچتے پہنچتے میں اندوہ میں ڈوب چکا تھا۔ ریل کا سفر ایسے کیا جیسے میں دکھ کے سمندر میں غرق ہوں۔

بچوں کی ماں ابھی نہیں پہنچی تھی۔ میں پسینے میں تر تھا اگرچہ موسم خوشگوار ہے۔ بچے سوال پوچھنے لگے، میں نے تلخی سے کہا، میں بہت دکھی ہوں، چپ رہو۔ وہ چپ ہو گئے۔ میں شلوار پہن کے قمیص پہنے بغیر بالکنی کا دروازہ کھلوا کے لیٹ رہا۔ بچوں نے اپرز پہنے ہوئے تھے۔ بالآخر پہلے بیٹی نے ہمت کرکے مجھ تک پہنچ کر میرے گال چومے اور مجھے اپنی بانہوں میں بھینچا۔ پھر بیٹے نے ایسا کیا۔ پھر پونے چار برس کا عافین بھی ہنستے ہوئے میرے اوپر آن گرا۔ مجھے ہنسی آ گئی۔ میرا دکھ عارضی طور پر فرو ہو گیا۔

اتنے میں ان کی ماں آ گئی۔ ابھی آتی ہوں کہہ کے آدھ گھنٹہ باتھ روم میں رہی۔ نکلی تو سر پر تولیہ باندھے، بیدنگ گاون پہنے میرے پاس آ بیٹھی، میں اسے بتا ہی رہا تھا کہ فیس بک پر میری دکھ بھری پوسٹ دیکھ کر تیس برس پہلے والی میری سابقہ بیوی میمونہ کا فون آ گیا، یہی پوچھنے کو کہ کیا ہوا۔ اسے کچھ بتایا۔

معلوم ہوا بچوں نے صرف ناشتہ کیا تھا، کیونکہ میں انہیں گیس کھولنے سے روک گیا تھا چنانچہ انہوں نے کچھ نہ کھایا۔ میں نے نرگس سے کہا، تم نے سن تو لیا ہے جو کچھ میں میمونہ کو بتا رہا تھا، جاؤ بچوں کو کھانا دو۔

سچ ہے بیویاں پرائی بیٹیاں ہوتی ہیں اور اپنے بیٹے بیٹی اپنا خون۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2