صحافی کے اوقات اور سیٹھ میڈیا کی پالیسی


ہم اسٹوڈیو میں تھے، کِہ جونھی آخری گیند پھینکی جائے، شو کا آغاز کر دیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے، انھوں نے قوم کو خوش خبری دی تھی، کِہ ورلڈ کپ فائنل کے روز ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی۔ میں نے بادامی کو شو سے پہلے سمجھا رکھا تھا، وہ ابتدائی کلمات میں یہ کَہ دے، یوں تو بجلی کی پیداواری قلت ہے، کہا یہ جاتا ہے کہ ہمارے اتنے وسائل نہیں، اتنی بجلی بنا سکیں، جتنی ضرورت ہے، لیکن یہ کرکٹ فائنل کے روز ہم کن وسائل کو استعمال کرتے بجلی پوری کر لیتے ہیں؟ ظاہر ہے ایک کرکٹ شو میں یہ سیاسی بات ایک ’’شرارت‘‘ ہی کہلائے گی۔
 
یونس خان کی قیادت میں ٹی 20 ورلڈ کپ 2009 کا فائنل پاکستان نے جیت لیا۔ کاونٹ ڈاون شروع ہوا، ہم فوراََ لائیو چلے گئے، وسیم بادامی نے ابتدائی کلمات میں مبارک باد دیتے، ویسا ہی کہا، جیسے ہم نے منصوبہ بندی کی تھی۔ ایسے میں ایم سی آر سے کنٹرول پینل پر کال آ گئی۔ ہدایت ملی کہ بریکنگ نیوز ہے، اینکر سے کہا جائے، وہ بریکنگ نیوز پر جانے کا اعلان کرے، ہمیں شو کٹ کر کے نیوز اسٹوڈیو جانا ہے۔ اُن دِنوں پاکستان کے بازاروں، مسجدوں میں دھماکے ہونا اِک معمول تھا، اب تو وہ دن کوئی ڈراونا خواب لگتے ہیں۔ دِل بہت میلا ہوا کہ یہاں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا ہے، وہاں کوئی بری خبر آ گئی ہے۔
 
ہماری نظریں ٹی وی اسکرین پر تھیں، کہ دیکھیں کیا خبر ہے۔ نیوز اینکر نے خوشی کا اظہار کرتے بتایا، کِہ پاکستان نے ورلڈ کپ جیت لیا ہے۔ مجھے کیا، سبھی کو بہت کوفت ہوئی کہ یہ کیا بکواس ہے۔ یہی کچھ تو ہم پروگرام میں بتا رہے ہیں، تو نیوز رُوم سے اعلان کرنا کیوں ضروری ٹھیرا۔ میں نے بادامی سے کہا، کِہ جونھی ہم دوبارہ آن ایئر ہوں گے، یہ کَہ دینا، ’’دیکھا! ہم نے کیسی زبر دست بریکنگ نیوز دی ہے!‘‘ وسیم نے حرف بہ حرف یہ کَہ دیا۔ شو ختم ہوا تو بادامی کے سیل فون پر کال آ گئی۔ اویس توحید جنھیں او ٹی کے نام سے جاننا جاتا ہے، ہیڈ آف نیوز تھے، بادامی سے انھوں نے نہ جانے کیا کیا کہا، کال ختم ہوئی تو بادامی نے جھینپ کر بتایا، او ٹی ناراض ہو رہے تھے، کِہ اپنے ہی چینل پر بیٹھے اپنے ہی چینل کا مذاق اُڑا رہے ہو؟ ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ اور ہمارا شو ’’اسپورٹس رُوم لائیو‘‘ نہایت خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوئے۔
 
بچوں کو اسکول سے گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، میں نے اُن کے ہم راہ پنڈی جانے کا پروگرام بنایا۔ پندرہ دِن کی چھٹی کی درخواست دی اور سفر پہ روانہ ہو گیا۔ احمد کامران میرا دوست بھی ہے، اور بہت اچھا ہدایت کار بھی۔ وا پس آیا تو اُس کی کال آئی، مجھ سے ملاقات کرو، ایک ضروری کام ہے۔ ملاقات پر اُس نے بتایا کہ وہ مجھ سے ایک ٹی وی سیریل لکھوانا چاہتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ میں ملازمت نہیں چھوڑوں گا۔ میرے ارداوں سے میرے دوست واقف ہی تھے، کہ میں کیوں کر نوکری چھوڑنا چاہتا ہوں۔ احمد کی سنائی اُس کہانی کے ’کردار‘ مجھے اچھے لگے، مگر پلاٹ پسند نہیں آیا، پھر میرے نظریات بھی اس سیریل کے ’مرکزی خیال‘ سے کچھ متصادم تھے۔ احمد سے کہا کہ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ اگلے روز میں نے پلاٹ تبدیل کرنے کی تجویز دی، کہ اگر ایسا ممکن ہو تو پھر لکھتا ہوں، اور دوسرا یہ کہ میں پیری فقیری کو پرموٹ نہیں کروں گا۔ یہ بات اس لیے بھی کہنا ضروری ہوئی، کہ سیریل کا بنیادی خیال اس کے قریب تھا۔ احمد کامران نے میری دونوں تجاویز مان لیں۔
 
اگلے مہینے میری تن خواہ تین دن کی کٹوتی کر کے ملی۔ ایچ آر سے استفسار کیا، تو انھوں نے میری ہیڈ کا نام لیا کہ ان کے کہنے پر یہ کٹوتی کی گئی ہے۔ جب کہ مایا خان مجھے پہلے کَہ چکی تھی، اُسے نہیں معلوم سیلری سے کٹوتی کیوں کی گئی ہے۔ میں سیدھا مایا کے پاس گیا اور پوچھا یہ کیا ہے؟ اُس نے پہلے بات اِدھر اُدھر گھمائی، پھر یہ کہا کہ آپ کب وقت پہ دفتر آتے ہیں، آفس ٹائم صبح نو بجے کا ہے۔ میں نے بھڑک کے کہا، ’’ٹھیک ہے میں صبح نو بجے آفس آ جایا کروں گا، لیکن شام پانچ بجے دفتر سے باہر ہوں گا۔‘‘ میرے تمام شو پانچ بجے کے بعد شروع ہوتے تھے۔ ان میں ’’آغاز‘‘ رات گیارہ سے بارہ کے بیچ میں ہوتا تھا۔ مایا تلملائی کہ یہ کیسے ممکن ہے، شو کون کرے گا؟ میں نے کہا، ’’کیا میں سیٹھ کا غلام ہوں، جو صبح نو بجے آئے اور رات ایک ایک دو دو بجے دفتر سے جائے، اور پھر اگلے روز صبح نو بجے دفتر میں ہو؟‘‘ وہ حیرت کی تصویر بنی، مجھے دیکھتی رہ گئی۔ میں نے مزید یہ کہا، کہ مہینے میں تین سو چھپن گھنٹے پورے کرنا ہوتے ہیں، جب کہ ایچ آر کی رپورٹ کے مطابق، میں مہینے میں چار ساڑھے چار گھنٹے آفس میں ہوتا ہوں۔ کیا مجھے اے آر وائے اوور ٹائم دیتا ہے؟ مایا نے کہا، اوور ٹائم دینا ادارے کی پالیسی نہیں۔ میں نے ترنت جواب دیا، تو ادارہ صرف ہماری تن خواہ کاٹنے کے لیے ہے؟ کمرے سے جاتے جاتے میں نے کہا اگلے مہینے کی سیلری کے ساتھ میری یہ تین دن کی تن خواہ نہ دی گئی، تو میں استعفا دے دوں گا۔
 
ماہِ رمضان کی آمد آمد تھی، ایک بار پھر یہ ہوا کہ میرے روٹین کے شو لے کر مجھے ایسا شو تھما دیا گیا، جو کسی کو نہیں کرنا تھا۔ پاکستان کے شہر شہر جا کے افطاری کے پروگرام رِکارڈ کرنا تھے۔ میں نے پہلا پروگرام رِکارڈ کیا تو وہ ڈیڈ لائن آ گئی، جس میں میری تین دن کی تن خواہ آنی چاہیے تھے، جو پچھلے مہینے کی سیلری سے کاٹی گئی تھی۔ اسے نہ آنا تھا نہ آئی۔ میں نے شام میں آفیشل ڈیسک ٹاپ پر استعفا ٹائپ کیا، تمام کولیگز کو ای میل کر کے ممنونیت کا اظہار کیا، اور باری باری ان کے پاس جا جا کر سب کا شکریہ ادا کیا، کہ ان کے ساتھ خوب دن گزرے۔ ہر کوئی کہنے لگا، یہ حماقت مت کرو، لیکن میں سوچ رہا تھا، کہ جہاں میں نے اپنی زبان سے نکلے حرف کو پورا کرنے کے لیے کئی نقصان اٹھائے ہیں، ایک اور سہی۔
 
رات گئے افطار شو کی اِڈٹنگ مکمل کر کے ٹیپ متعلق شعبے تک پہنچائی۔ آفیشل ای میل سے اپنا استعفا مایا کو فارورڈ کر دیا، اور سب بڑوں کو سی سی میں رکھا۔ دوستوں کا اندیشہ دُرست نکلا، کہ مجھے جونھی کوئی دوسرا آسرا ملا، میں نوکری پہ چار حرف بھیج دوں گا۔ اگلے روز دیر تلک بے فکری کی نیند سوتا رہا۔ میں آزاد پنچھی تھا، اب مجھے اسکرپٹ رائٹنگ کی طرف توجہ دینا تھی۔
ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran