عدلیہ کا اعتبار اٹھ گیا تو عوامی عدالتیں سجیں گیں


کسی بھی ریاست کا نظم و ضبط برقرار رکھنے میں انصاف کی بلا امتیاز فراہمی کا بہت بڑا کردار ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ریاست مستحکم نہیں رہ سکتی جب تک وہاں نظام عدل فعال نہ ہو۔ عدل و انصاف سماج اور معاشرے کا بھی جزو لا ینفک ہے۔ اسی طرح نظام عدل کی شفافیت، فعالیت اور غیر جانبداری تمام طبقات کے لئے شکوک سے بالاتر رہنا نہایت ضروری ہے۔ نظام عدل اس وقت ہی فعال ہو سکتا ہے جب تک معاشرے کے تمام افراد کا اس پر یقین یکساں قائم ہو اور اس کی غیر جانبداری کسی بھی شک و شبہے سے بالاتر ہو۔

نظام عدل کی جانبداری کی صورت طاقت کا توازن بری طرح متاثر ہو سکتا ہے اور ایسے معاشروں میں استحکام کی کوئی ضمانت نہیں رہتی۔ جن ریاستوں اور معاشروں میں نظام عدل کمزور یا غیر فعال ہو وہاں لوگ اپنے باہمی اختلافات کو زور بازو سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے سبب انارکی پھیلنا شروع ہوتی ہے، اور اس انارکی کا اختتام ریاستی و معاشرتی نظام کا شیرازہ بکھرنے پر ہوا کرتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے عدلیہ کا کام صرف واقعاتی اور مقبول انصاف فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ بر وقت، نظریاتی اور عقلی پیمانے پر پورا اترنے والا انصاف فراہم کرنا عدلیہ کی اصل ذمہ داری ہے۔

گزشتہ عرصے میں نواز شریف کے خلاف جب بھی عدالتوں سے فیصلے آئے، ان کی صحت پر بہت سے تحفظات تھے۔ نواز شریف کو سنائی گئی سزا کی وجہ، مقدمے کی بنیاد سے یکسر مختلف تھی۔ شاید یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ بھی تھا، جس میں سزا سنانے کے بعد جرم کے ثبوت ڈھونڈنے کا آغاز ہوا۔ سپریم کورٹ نے نا اہلی کا فیصلہ کرتے وقت ایک ٹرائل کورٹ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا جس نے جے آئی ٹی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی حقیقت کا پتہ لگانا تھا۔

نا اہلی کے فیصلے کے وقت تک ملنے والی تفصیل کے مطابق جو سوالات اٹھائیس جولائی کو تشنہ تھے وہ پھر بھی جوں کے توں رہے۔ مثال کے طور پر یہ واضح ہونے کے بعد بھی کہ لندن میں موجود گمنامی فلیٹس نواز شریف کے بچوں کی ملکیت ہیں، نیب یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، کہ اس جائیداد سے براہ راست نواز شریف کا کیا تعلق ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ان فلیٹس کی خریداری کے وقت میاں صاحب کے بچے کم عمر تھے، تو پھر بھی محض اس دلیل کو جواز ٹھہرانے کے علاوہ اس بات کا کیا ثبوت تھا کہ ان کی خریداری کے لیے پیسے میاں صاحب نے ہی غیر قانونی آمدن سے بھیجے تھے۔

جبکہ شریف فیملی کا موقف ہے کہ بچے اپنے دادا کے زیر کفالت تھے، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں اس خریداری کے لیے سرمایہ اپنے دادا سے ملا ہو۔ مریم نواز اور حسین نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں درج ہے کہ انہوں نے عدالت کے روبرو جھوٹے کاغذات جمع کرائے۔ اس الزام میں اگر سچائی ہے تو بھی مذکورہ ٹرسٹ ڈیڈ تو بہن اور بھائی کے درمیان تھی، لہذا اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہو پائی کہ مریم نواز نے اس عمل سے اپنے والد کو کس طرح تقویت پہنچائی؟

مفروظوں کے تال میل اور استغاثہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے ناکافی شواہد کے باوجود نیب عدالت نے سخت ترین سزا سنا کر میاں صاحب، ان کی بیٹی اور داماد کو زنداں بھیجنے کا حکم دے دیا تھا۔ کچھ وقت بعد لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ضمانت منظور ہونے پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں ان تمام کی رہائی ہو گئی۔ تاہم چوبیس دسمبر دو ہزار اٹھارہ کو نیب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنا کر ایک بار پھر جیل بھیج دیا۔

میاں صاحب تا حال کوٹ لکھپت جیل میں اس مقدمے میں ملنے والی سزا کاٹ رہے ہیں۔ لیکن ان کی بیٹی مریم نواز اب سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی ایک مبینہ ویڈیو سامنے لے کر آئی ہیں جس میں بظاہر جج صاحب اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کرپشن کے کوئی ثبوت نہیں ملے تھے لیکن وہ دباؤ کے تحت نواز شریف کو سزا سنانے پر مجبور ہوئے۔ لاہور میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ یہ ویڈیو نواز شریف کے ایک چاہنے والے نے بنائی ہے جس نے جج ارشد ملک سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ جس میں جج صاحب نے اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ لفظ کہے۔

اگرچہ مذکورہ جج صاحب کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ویڈیو میں موجود ناصر بٹ نامی شخص سے ان کی ملاقات ضرور ہوئی ہے تاہم ویڈیو مختلف مواقع پر کی گئی باتوں کو توڑ مروڑ کر بنائی گئی ہے۔ ابتدا میں حکومت کا موقف تھا کہ یہ ویڈیو جعلی ہے اور اس کا فارنزک آڈٹ کرایا جائے گا۔ اس کے بعد جج صاحب کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز کو بنیاد بنا کر حکومت اس معاملے سے پیچھے ہٹ گئی اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اس چیز کو عدالت خود دیکھے گی۔

حالانکہ تحریک انصاف کا بنیادی نعرہ ہی احتساب ہے۔ پچھلے دس گیارہ مہینوں میں جتنی بھی بڑی گرفتاریاں ہوئی تحریک انصاف کی طرف سے ان کا یہ کہہ کر دفاع کیا گیا کہ ملک میں عدالتیں آزاد اور قانون سب کے لیے برابر ہے۔ کچھ عرصہ قبل مگر چیئرمین نیب کا بھی ایک انٹرویو سامنے آیا تھا جس سے تاثر یہ ملا کہ نیب کی کارروائیاں سلیکٹڈ ہیں۔ اس انٹرویو کے فورا بعد حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کے ٹی وی چینل پر چیئرمین نیب کی ایک نا مناسب ویڈیو بھی چلائی گئی مگر یہ معاملہ کسی نہ کسی طرح دب گیا۔

لیکن اب ایک بار پھر ڈھیلی ڈھالی پریس ریلیز کو بنیاد بنا کر حالیہ معاملے پر بھی مٹی ڈالنا نظام عدل اور احتساب پر یقین مزید متزلزل کرنے کا سبب ہو گا۔ مسلم لیگ ن پہلے ہی اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں رکھنے پر بضد ہے۔ اللہ نہ کرے نظام عدل سے عوام کا اعتماد بالکل ہی ختم ہو جائے۔ معاملات واقعتا عوامی عدالتوں میں حل ہونا شروع ہو گئے تو کیا ہو گا سوچ کر خوف آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).