پانی زندگی ہے


یوں تو اس وقت وطن عزیز کو بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ دہشت گردی، امن امان کی بالادستی، بدعنوانی کا خاتمہ، اچھی انتظام کاری، توانائی کا بحران، بدترین معاشی صورت کا خاتمہ، بے روزگاری، مہنگائی، ٹیکس اہداف حاصل کرنا مگر ان تمام مسائل کی ماں جس مسئلے کو کہا جا سکتا ہے وہ ہے پانی کا بحران ہے۔ جنرل ایوب خان کی حکومت کو ختم ہوئے پچاس سال گزر گئے ہیں اور ان پچاس سالوں میں ہم نے کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا۔ موجودہ حکومت نے مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا ہے۔

پچھلے پچاس سالوں میں دو فوجی حکمران اور چار سے پانچ سیاسی حکومتیں آئی اور چلی گئی مگر کسی نے نئے ڈیم بنانے کا نہیں سوچا۔ کالا باغ ڈیم کو ہم نے از خود ہی متنازعہ بنا دیا۔ ہماری تین صوبائی اسمبلیوں، خیبرپختونخواہ، سندھ اور بلوچستان نے اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف قرارداد پاس کر دی۔ یہاں غور طلب سوال یہ ہے کہ یہ تین صوبے اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کیوں ہیں۔ اس کے پیچھے صرف اور صرف سیاسی محرکات ہیں وگرنہ اگر تمام صوبے مل کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو انتظامی بنیادوں پر ایک فکری نشست رکھ کر حل کرنے کی کوشش کرتے تو شاید اب تک یہ ڈیم بن چکا ہوتا۔

اسی طرح بھاشا ڈیم کا معاملہ دیکھیں تو تین بار افتتاح ہوا مگر تعمیر نہ شروع ہوئی۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت سرسبز پاکستان کے نعرے پر یقین رکھتی ہے۔ ملک بھر میں پودے لگانے کا کام شروع کر چکی ہے۔ شادابی پانی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اورپانی کے لیے ڈیم بنانے ہوں گے۔ ڈیم جہاں پینے کے پانی کا ذخیرہ کرے گا وہاں زرعی ضروریات کو بھی پورا کرے گا اور توانائی کا مسئلہ بھی حل کرے گا۔ ڈیم بناناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

پانی زندگی ہے، ہماری بقا بھی اسی میں ہے۔ ڈیم کے حوالے سے آگاہی مہم سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے دور میں شروع کی گئی۔ عدلیہ کو اس معاملے میں دخل دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مختلف سیاسی اور عسکری حکومتوں نے اپنا کردار نہیں ادا کیا۔ سابق چیف جسٹس کو میدان میں آنا پڑا۔ موجودہ وزیر برائے آبی وسائل فیصل ووڈا اس سلسلے میں خاصے متحرک ہیں۔ حال ہی میں مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ امید ہے پانچ سالوں میں یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا اور اگر نہ ہوا تو تحریک انصاف کی حکومت اور باقی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔

صوبہ پنجاب اس وقت پینے کے صاف پانی جیسے سنگین مسئلے کا شکار ہے باقی صوبوں کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ شہبازشریف کی سابقہ پنجاب حکومت نے صاف پانی کی کمپنی بنائی مگر اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کرپشن کی بے شمار کہانیاں ہمارے سامنے ہے اور منصوبے کے تمام کرتادھرتا پابند سلاسل ہیں۔ موجودہ پنجاب حکومت ان معاملات سے باخبر ہے۔ بجٹ برائے 2019۔20 میں صحت اور پانی کے حوالے سے خطیر رقم رکھی گئی ہے اور ایک نیا ادارہ ”آب پاک اتھارٹی“ کے نام سے بنایا گیا ہے۔

جب بجٹ سازی ہو رہی تھی اس ادارے کے قیام کے 10 ارب روپے رکھنے کی تجوید دی گئی تھی۔ جب 23 کھرب 157 ارب کا بجٹ پیش کیا گیا۔ حکومت پنجاب نے ”آب پاک اتھارٹی“ 8 ارب روپے رکھے گئے جو تجویز کی گئی رقم سے دو ارب کم تھے مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ اب اس اتھارٹی نے کام شروع کرنا ہے اور اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا ہے کہ صرف دعوے اور نعرے ہی نہیں کام بھی ہو سکتا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے لیے اس اتھارٹی کاقیام کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اس وقت پانی کی صورت حال بہت خراب ہے۔ اگر ہم نے آنے والی نسلوں کے لیے اس مسئلے کو حل نہ کیا تو وہ ہمیں نا اہل آباؤاجداد کے نام سے یاد رکھیں گے۔ موجودہ حکومت کو اپنی تمام تر توانائی پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں صرف کرنا ہو گی کیونکہ پانی کے بغیر انسانی زندگی کی بقا نہ ممکن ہے۔

اس وقت ملک بھر میں 21 ملین لوگوں کو اپنے گھر کے قریب صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ پاکستان ان دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہر 10 میں 4 سکولوں میں پینے کا پانی میسر نہیں ہے جو قابل تشویش بات ہے کہ ہم اپنے نونہالوں کو کیا دے رہے ہیں۔ 79 ملین افراد کو صاف ستھرے واش روم دستیاب نہیں ہیں، ہر 3 میں ایک سکول میں واش روم کی سہولت موجود نہیں ہے۔ 46 %آبادی کو گھروں میں صابن اور پانی سے ہاتھ دھونے کی سہولت میسر نہیں ہے۔ پانی کے ذرائع کو بہتر بنا کر 210 %بیماریوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس ساری صورت حال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ آنے والی نسل کو اچھا مستقبل دیں۔

پنجاب اسمبلی میں دو قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔ قرارداد نمبر 1 پنجاب کی 17 فیصد عوام ٹوائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ جن علاقوں میں ٹوائلٹ کی کمی ہے ان میں راجن پور، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خان سہرفرست ہیں جہاں 40 فیصد افراد ٹوائلٹ سے محروم ہیں۔ وہاں ٹوئلٹ کی سہولت فورا مہیا کی جائے۔ قرارداد نمبر 2 یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ عوام کے لیے پینے کے میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے 21 ارب روپے مختص کرنے پر موجودہ حکومت کو مبارک باد پیش کرتا ہے۔ اس شعبے سے وابستہ تمام محکمہ جات کو پابند کرتا ہے کہ مالی سال کے آخر تک اس منصوبے کے ثمرات عوام تک پہنچ جائیں۔ سیکرٹری پنجاب اسمبلی نے دونوں قراردادیں منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو ارسال کر دی ہیں تاکہ وہاں یہ کام شروع ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).