جمہوریت، موروثیت اور کرپشن


ابھی تسلسل کے ساتھ صرف دو ہی گرتی پڑتی، پکڑی جکڑی اور لولی لنگڑی جمہوری حکومتیں گزری ہیں اور تیسری کا امتحان جاری ہے تو نتائج سب کے سامنے ہیں کہ کیسے کیسے پہلو اور کردار ننگے ہو چکے ہیں اور مسلسل ہو رہے ہیں اور ابھی ہوتے رہیں گے۔ جمہوریت میں تطہیر اسی طریق پر ہوا کرتی ہے اور یہی پائیدار اور فطری طریقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت کو بھی بہترین آمریت سے بہتر مانا جاتا ہے کیونکہ یہی وہ ماحول فراہم کر سکتی ہے جس میں غیر محسوس طریقے سے عوام کی سیاسی بلوغت کا سامان ہو سکتا ہے اور یہی وہ چھلنی ہے جو بھوسے کو گیہوں سے علیحدہ کرتی ہے۔

جدید قومی ریاست میں کسی بھی قوم کے تمام پہلومثلاً تعلیم، صحت، کھیل، امنِ عامہ، روزگار، ادب، ثقافت، معیشت اور امورِ خارجہ بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاسی استحکام سے ہی جُڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہمارا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی استحکام کبھی آنے ہی نہیں دیا گیا لہذا نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ جہاں دنیا دوڑ رہی ہے وہاں ہم ٹھیک سے رینگ بھی نہیں پا رہے ہیں۔ جب کبھی بھی ہم اُس مرحلے تک پہنچنے کے قریب ہوتے ہیں تو نئے مہرے کھڑے کر کے بساط الٹ دی جاتی ہے اور ہم سانپ سیڑھی کے کھیل کے مترادف دوبارہ نقطۂ آغاز پر پڑے ہوتے ہیں۔ موجودہ معاملات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ عالمی برادری کے ساتھ باوقار طریقے سے کھڑا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہوں۔

ہمارے ہاں جب جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو دو چار مثالوں کے ساتھ موروثیت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ وطنِ عزیز کی اب تک تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو محض ایک ڈھکوسلے سے زیاہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ جمہوریت کی پہلی شرط اور مرحلہ عوامی بالادستی ہے۔ جب پہلا مرحلہ طے پا جائے گا یعنی عوامی بالا دستی قائم ہو جائے گی تو پھر سیاسی جماعتیں بنوائی نہیں جائیں گی بلکہ سیاسی طور پر بالغ ہو چکے عوام از خود منظم ہو کر کسی پہلے سے موجود بساط کو الٹنے کے آلۂ کار بننے کی بجائے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے سیاسی جماعتیں تشکیل دیں گے۔

جب تک سیاسی جماعتیں یا سیاسی اتحاد بنوائے جاتے رہیں گے تب تک پارٹیاں فرِ واحد یا کسی خاندان کے گرد گھومنے کے اصول پر ہی بنیں گی کیونکہ ایسے میں معاملات طے کرنے والوں کے لئے ایک ہی فرد یا خاندان کو ڈیل کرنا آسان رہتا ہے۔ اور یہ آسانی بھی رہتی ہے کہ مقتدرہ حلقے بار بار بدلنے والے پارٹی سربراہان کے سامنے عیاں ہونے سے بھی محفوظ رہیں اور فردِ واحد یا خاندان اگر کبھی ”تعاون“ کرنے کی بجائے سر کشی کی کوشش کرے تو اسے تلف کرنا بھی بہت آسان رہتا ہے۔ جس کی مثالیں کوئی چراغ لے کر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے کہ جب عوامی بالا دستی کا مرحلہ طے پا جائے گا تو پھر یہ مذکورہ موروثیت از خود رد ہو جائے گی کیونکہ مذکورہ موروثیت ایک پیداواری نقص ہے جو ان سیاسی جماعتوں کو پیدا کرنے والے نے ان کی بنیاد میں رکھ دیا ہے ورنہ تو ذرا سوچئے کہ جماعتِ اسلامی مذکورہ موروثیت سے پاک ہے لیکن انہیں کبھی حکومت کیوں نہیں ملی۔ جب کہ مملکتِ خدا داد آئینی طور پر اسلامی ہے۔ لہذا پہلا مرحلہ طے کرنے سے پہلے دوسرے مرحلے کو عبور کرنے کے نعرے بے وقت کی راگنی اور اس قسم کے ہتھکنڈوں سے بطورِ کُل جمہوریت کو بدنام اور کمزور کرنے کی بھونڈی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔

جہاں تک مالی کرپشن کا معاملہ ہے تو اس کے لئے بھی تاریخ کے جھروکوں سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ جب مردِ مومن ضیأالحق صاحب نے غیر جماعتی انتخابات کروائے تو وہ بھی در اصل اس بات کا ہی اعلان تھا کہ سیاسی جماعتوں کو بے بس اور رفتہ رفتہ نابود کر دیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات کا محور سیاسی جماعتوں کی بجائے، ان کے منشور اور نامزدگی کی بجائے پیسہ لگا کر انتخابات جیتنا ٹھہرا اور پہلی بار انتخابات میں لاکھوں اور کروڑوں لگانے کا کھیل شروع ہوا۔ جو بعد ازاں رواج ہوتے ہوتے آج بھی نام نہاد الیکٹ ایبلز کی شکل میں ہمارے گلے پڑا ہوا ہے۔

اس عمل کے جملہ نقصانات ہوئے جن میں سرِ فہرست یہ ہے کہ کم سرمائے والا یا غریب آدمی انتخابی عمل سے بے دخل کر دیا گیا۔ دوئم یہ کہ جو شخص کروڑوں لگا کر پارلیمنٹ تک پہنچے گا اور وہ بھی ایسی غیر یقینی صورتِ حال میں کہ اسے علم ہی نہیں کہ وہ جس سرکار کا حصہ ہے وہ کب گرا دی جائے گی، وہ سیاہ سفید کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے کچھ منافع کے ساتھ اپنی لگائی ہوئی رقم واپسی کی کوشش نہیں کرے گا، یہ بالکل غیر فطری ہو گا۔ لہذا جب تک کروڑوں لگا کر انتخابات جیتنے کے عمل کا سدِ باب نہیں کیا جاتا، مالی کرپشن سے جان چھڑانا قریباً ناممکن ہے۔

ایسا ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ عوامی بالادستی کا مرحلہ طے پائے۔ کیونکہ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ سیاسی جماعتیں کچھ مذموم عزائم کے لئے نہیں بلکہ از خود سیاسی مقاصد کے اصول پر تشکیل پائیں، سیاسی کارکنان سیاسی سوجھ بوجھ اور کار کردگی کی بنیاد پر آگے آئیں، نمائندگان نامزدگی کی بنیاد پر عوام سے رجوع کریں اور سیاسی طور پر پختہ اور بالغ عوام جماعتی منشور اور کارکردگی کے پیشِ نظر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرسکیں، کروڑوں لگانے کے چلن کو خیر باد کہا جائے اور ایسا کرنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

ایک بات جو یاد رکھنا ہو گی وہ یہ ہے کہ یہ مرحلہ وار عمل ہے اس لئے قدرے صبر آزما بھی ہے اور عزم کا تقاضا بھی کرتا ہے اور اگر ہم مراحل کو گڈ مڈ کرنے یا پہلے مرحلے سے قبل دوسرے یا تیسرے مرحلے کو عبور کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ الجھاؤ کے علاوہ اس بات پر بھی منتج ہو سکتا ہے کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ ویسے بانس سے نجات پانے کے خواہشمندوں کے لئے بھی موجودہ حالات تاریخ کی سب سے بڑی دعوتِ فکر اور نظرِ ثانی کا شاید آخری موقع ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).