کیا ریحان کو واپس لایا جاسکتا ہے؟


شہر بانو

\"shahar-bano\"جب سے عناصر کے مرکب بدن نے زندگی کی حرارت پائی ہے تب سے موت کا خوف اس کا دامن تھامے لاکھوں برسوں سے چلتا آرہا ہے۔ جتنی شدت سے اس خوف نے انسان کو گھیر رکھا ہے، اتنی ہی شدت سے اس موت کو شکست دینے کی خواہش اور کاوش بھی انسانی سرشت میں انگڑائیاں لیتی رہی ہیں۔ پیدا ہوتے ہی اس موت کو شکست دینے کی تگ و دو شروع ہوجاتی ہے، جسے کبھی کسی بیماری کی صورت میں صحت یاب ہوکر ہم شکست دیتے ہیں تو کبھی کسی حادثے کو ٹال کر اسے منہ کے بَل گراتے ہیں، لیکن پھر بھی ہم حتمی طور پر کامیاب نہیں ہوتے کیوں کہ آخر کار کہیں نا کہیں سے کوئی بھی رستہ بناکر موت زندگی کی حرارت و روشنی کو خود میں جذب کرکے پیچھے اندھیرا اور ٹھنڈا جسم چھوڑ دیتا ہے۔ موت کے اسی نا قابل شکست ہونے ہی نے اسے سب سے بڑا ڈر بنادیا ہے۔

کیا انسان کو موت سے بدتر کسی چیز کا سامنا ہوسکتا ہے؟ ہاں موت سے بھی بدتر شئے انسانی زندگی کی لایعنیت ہے۔ یعنی وہ زندگی جو اپنی چھاپ چھوڑے بغیر ہی ختم ہوجائے۔ لیکن یہ لا یعنیت نا قابلِ شکست نہیں، اسے شکست دی جاسکتی ہے اور پھر اسی لا یعنیت کی شکست موت کی بھی شکست بن جاتی ہے کیوں کہ پھر ایک انسان اپنی تعریف محض جسم کے قید میں بند ایک حرارت کے بہ طور نہیں پاتا بلکہ اس کی تعریف، کسی مصور کا کشید کردہ کوئی آرٹ، کسی شاعر کا مصرعہ، کسی کے الفاظ، کسی کی باتیں یا کسی کا اٹھایا ایک قدم بن جاتا ہے۔ بس اور کچھ نہیں کرنا ہوتا سوائے اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر ایک قدم اس جانب بڑھانا ہوتا ہے جہاں کسی کے پیروں کے نشان نہیں۔ یوں لایعنیت اور موت خود لایعنی ہوکر مرجاتے ہیں۔ یہیں سے موت اور زندگی کی حدود ایک دوسرے کے ساتھ مدغم اور غیر واضح ہوجاتی ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ زندہ ہیں اور کتنے لوگ موت کو گلے لگا چکے ہیں، اِس کا تعین ہماری سانسوں کی روانی سے ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ اپنے دفنانے سے کئی سال پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ہمیشہ کے لیے زندہ رہ جاتے ہیں۔

ریحان رند کی موت کی خبر نے ہم سب کو ایک الم ناک صدمے سے دوچار کر کے ہماری روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ایک مسکراتا چہرہ جس کی آنکھوں میں اپنے کل کو لے کر کئی اُمیدیں تھیں۔ جس کے تحت وہ روز اپنی اذیت ناک بیماری کو پچھاڑنے میں سرگرداں تھا، جو اُسے اُس کی اُمیدوں سے دور دھکیلنا چاہتا تھا۔ آخر کون تھا یہ عام سا لڑکا جو مرنے کے بعد بھی زندہ ہے اور ہر جانے اور انجانے کا موضوعِ سخن بنا ہوا ہے؟ شاید میں اس کے نام سے منسوب کر کے لکھنے کے لیے کوئی عظیم کارنامہ ڈھونڈوں تو کچھ ڈھونڈ نا پاؤں۔ لیکن اس عام لڑکے نے مرنے سے پہلے اپنا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہزاروں زندہ مُردوں کو جینا سکھانے کی کوشش کی۔۔ ایک الم ناک موذی بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنی تمام تر تکالیف کو چھپاتے ہوئے ایک پرسکون مسکراہٹ چہرے پر سجانا ایک کمال ہنر سے کم نہیں اور وہ اس ہنر سے وہ بہ خوبی واقف تھا۔ وہ اپنے اقارب کو اس بات کا یقین دلوانا چاہتا تھا کہ ہمارے مسائل اور تکالیف خواہ جتنی بھی کرب ناک اور اذیت ناک کیوں نا ہوں وہ اس حد تک کبھی نہیں جا سکتیں کہ ہمارے حوصلوں اور ارادوں کو پسپا کر سکیں۔

خضدار شہر کے علاقہ گزگی سے تعلق رکھنے والے اس اکیس سالہ نوجوان نے کتنے ارمان اور خواب اپنے مستقبل کے حوالے سے دیکھے ہوں گے، اس بات کا اندازہ اس کی محنت اور لگن سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اپنے مالی حالات کی وجہ سے کراچی میں بی ایس سی میں داخلہ لے کر خود پڑھنے کے ساتھ ساتھ بیکن ہاؤس دی ایجوکیٹر میں پڑھاتا تھا۔ اپنی قابلیت اور ذہانت کی وجہ سے وہ دوسروں سے بلکل منفرد تھا۔ سائنس کے ساتھ ساتھ سیاست اور ادب سے بھی بہ خوبی واقف تھا۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات میں اکثر اس کی تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ یہ لڑکا آگے جا کر بلوچستان کا وہ ابھرتا روشن ستارہ بنے گا جس کی تاب سے یہ روئے زمین روشن ہوگی۔ لیکن اس بدقسمت زمین کو شاید اب روشنی نگلنے کی لَت لگ چکی ہے۔

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ‌ہائے گراں مایہ کیا کیے

\"rehan-rind\"طلوع ہونے اور اپنا جوہر دِکھانے سے پہلے ہی گرہن کے آثار اس وقت نمایاں ہوگئے جب اس ہول ناک بیماری بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی۔ اس بیماری کی کرب اور اذیت ایک طرف، اور اس کے علاج کے خرچہ کا زیادہ تخمیہ اس کے اقارب کو جس لاچاری اور بے بسی کے عالم سے دوچار کیے ہوئے تھا، وہ شاید الفاظ میں بیان نہ ہو سکے۔ اس کے دوستوں اور مخیر حضرات نے کسی حد تک اس کا خرچہ برداشت کرنے کی کوشش کی۔ مختلف کالجوں، یونیورسٹی اور سکولوں کے طلبا کی جانب سے چند روز بیشتر ہی با ضابطہ فنڈنگ مہم کا آغاز کیا گیا۔ اسی دوران حکومت سے بھی ان کی بیماری کے اخراجات برداشت کرنے کی اپیل کی گئی۔ علاوہ ازیں ان کے علاج کے واسطے سرکاری گرانٹ کے لیے ایک سمری گذشتہ 20 روز سے چیف سیکریٹری کے پاس موجود تھی جو عمل درآمد کی منتظر ہی رہی۔

ریحان رند کے ان کرب ناک لمحات میں جس طرح سے کچھ لوگوں نے اپنی بے حسی کا مظاہرہ کیا، اسے شاید میں کبھی قلم بند نہ کر سکوں۔ لیکن جیسے ہی ریحان کی سانسیں بند ہوئیں، ان نیک تمناؤں کی آہ کے ساتھ بالآخر ان منفی رویوں کو بھی چپ لگ گئی۔ اب مہر، محبت کسی جانب غم اور کہیں غصے کی گونج آتی رہتی ہے۔

یہی تو ہم کرتے ہیں اور یہی کرتے آئے ہیں۔ ہم تو خلیل جبران کی بتائی ہوئی وہ قوم ہیں، \” جس کی آواز محض جنازوں میں گونجتی ہے\” اور یہ گونج بھی جسم کے ٹھنڈے ہونے کا ساتھ ٹھنڈی پڑ‌جاتی ہے۔ ریحان جسمانی طور پر تو جدا ہوگیا ہے لیکن ہم اسے اب بھی مرنے سے بچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی مردہ پرستی کی روایت کو ختم کر کے ابھرنا ہوگا۔ جس بے حسی سے ہم نے اسے مارا، اتنا ہی جذبہ مجتمع کرکے اسے واپس زندہ کرنا ہوگا۔

ہاں، اسے دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ بس اور کچھ نہیں اپنی یہ ساری ہم دردیاں، مہر، محبت، غم و غصہ، ٹسوے اور آہوں کو ظاہر کر کے ختم نہیں کرو، انہیں جمع کر کے پوری کوشش بلوچستان میں ایک اچھا کینسر ہسپتال بنانے پر صَرف کر دو۔

یہی ریحان کی آخری خواہش تھی۔ اس کی خواہش کو حقیقی شکل دے کر نہ صرف اسے زندہ کرسکتے ہیں بلکہ ہزاروں اور ریحان کو مرنے سے بھی بچا سکتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments