سندھ کی فضیلہ کو کون بازیاب کروائے گا؟



\"asad-lashari2\" 30 اگست 2016 کو دنیا بھر میں گمشدہ افراد کا عالمی دن منایا گیا تھا، اس دن کو منانے کا مقصد ان خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہوتا ہے جن کے پیارے گمشدہ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک یہ دن منانے کا رواج شروع نہیں ہوا۔ دنیا بھر میں اس دن، انسانی حقوق کی تنظیمیں سیمینارز منعقد کرواتی ہیں اور عزم کیا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک گمشدہ افراد کے خاندانوں کی آواز پہنچائی جائے اور ان کے پیاروں کو گھر واپس لانے کی قرادادیں بھی پیش کی جاتی ہیں۔ مگر پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے اگر کوئی مسنگ پرنسنز کے بارے میں بات کرتا ہے تو اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ دن سب سے پہلے امریکہ میں منایا گیا تھا 25 مئی 1979 میں منعقد کیا گیا تھا اس دن کو مسنگ چلڈرن کے نام سے ہر سال 25 مئی کو منایا جاتا ہے، جب کہ 1981  میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ایک اور دن منانا شروع کیا گیا اور اس دن کو صرف مسنگ پرسنز ڈے کہا جاتا ہے یہ دن ہر سال 30 اگست کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ لیکن یہ دن ہمارے ہاں ویلنٹائن ڈے کی طرح میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر سکا اس لیے یہ دن منانے کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا، حالانکہ پاکستان کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیاں اور قتل کرنا معمولی بات ہے۔ پھر بھی اس دن کے حوالے سے ملکی میڈیا پر کوئی بات ہی نہیں کی جاتی۔ بہر حال انسانی حقوق کی تنظیمیں اس دن کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کام کرتی نظر آتی ہیں لیکن ان کی بھی زیادہ تر سر گرمیاں چار دیواری کے اندر تک محدود ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید محب وطن قوتوں کا ڈر ہے جو ہر وقت ان کے ساتھ رہتا ہے، ہمیشہ ان کو یہی خوف ہوتا ہے کہ کہیں وہ بھی نہ اٹھا لیے جائیں یا پھر غداری کا سرٹیفیکٹ نہ ہاتھ میں تھما دیے جائیں۔ اس لیے عوامی سطح پر ایسے پروگرام منعقد کرانا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔

یہ تو ہو گئی جبری گمشدگیوں کی بات لیکن ان گمشدہ افراد کا کیا جائے جو نہ تو سیاسی طور پر ملک کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں اور نہ ہی بین القوامی سطح پر کسی مطلوب ہوتے ہیں پھر بھی وہ بازیاب نہیں ہو پاتے مثلاً سندھ کے سب سے پسماندہ علائقہ ٹھل، جہاں سے تقریباً نو سال پہلے جنرل پرویز مشرف کے دور میں فضیلہ سرکی نامی کمسن بچی کو اغوا کیا گیا تھا۔ اغوا کے وقت اس کی عمر نو سال عمر تھی اب بیس سال کی ہونے کو ہے لیکن ابھی تک وہ بازیاب نہیں کرائی جا سکی۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے اسے بازیاب کرانے کے لیے از خود نوٹس لیا لیکن اس کا نوٹس بھی کسی کام نہ آ سکا اور نہ ہی اسے اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد کرایا جا سکا۔ اس عرصہ کے دوران ایک منتخب کردہ جمہوری حکومت نے اپنا مدد پوری کر لیی جب کہ دوسری حکومت اپنی مدت پوری کرنے کو ہے لیکن ابھی تک اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

تعجب اس بات کا ہے کہ اسی حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں صوبائی اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں جو سب جاننے کے باوجود بے خبربنے ہوے ہیں۔ فضیلہ کے والدین پچھلے نو سالوں سے سرداروں، جاگیرداروں اور پولیس تھانوں کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں لیکن پھر بھی ان کی بیٹی بازیاب نہیں ہو سکی۔ افسوس اس امر پر ہوتا ہے کہ درد ناک اور ان عذاب صورت لمحات میں بھی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے نمائندے اپنی سیاسی دکان چمکانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔

فضیلہ کے والدین کے ساتھ بھوک ہڑتال میں بیٹھ کر ان کے ساتھ دو چار تصاویر بنوا کر ان پر احسان جتا کر چلے جاتے ہیں۔ جبکہ ٖفضیلہ کے والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندوں کا ضمیر جاگ گیا ہے، اب وہ ان کی بیٹی کو اپنی بہن بیٹی سمجھ کر واپس لانے کی کوشش کریں، نہ جانے کتنے ایسے ان گنت خیالات ان کے ذہنوں میں گردش کرتے ہوں گے۔ حکومت سندھ جو پہلے ہی بے بس ہے ان کی غیر سنجیدگی دیکھ کر فضیلہ کے والدین نے قرآن کو آخری سہارا سمجھ کر احتجاج کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید حکمران قرآن کو مان لیں کیونکہ سندھ کی روایات کے مطابق بہن بیٹی کو سات قرآن کے برابر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ کیسی بے بس و لاچار حکومت ہے جو نو سال سے ایک مجبور ماں کی آہ و فغاں نہیں سن رہی۔ ان کے مطابق وہ حکمرانوں کو قرآن کا واسطہ اس امید پر دے رہی ہے کہ شاید حکمرانوں کا ایمان جاگ جائے۔ آخر بے بس انسان اس کے علاوہ اور کر بھی کیا کر سکتا ہے۔ مایوسی اس قدر ان کے اندر بڑھ چکی ہے کہ عید کے بعد انہوں نے خود کو سندھ اسمبلی کے سامنے آگ لگا کر خود کشی کا فیصلہ کیا ہے۔ کاش کوئی فضیلہ کے والدین کو یہ بتا دے کہ وہ ذہنی طور پر پسماندہ اور شخصیت پرست معاشرہ میں رہتے ہیں جہاں مقدس کتاب کا حلف اٹھا کر جھوٹ بولا جاتا ہے اور ان کو کوئی یہ بھی بتا دے کہ ہمارے منتخب نمائندے ملک سے زیادہ اپنے قائدین کے وفادار ہوتے ہیں۔ اگر وہ اپنی بیٹی کی بازیابی چاہتے ہیں تو بلاول ہاؤس کے باہر بھوک ہڑتال پر بیٹھ جائیں، شاید بلاول کا نوجوان خون فضیلہ کو بازیاب کرانے کے لیے کھول اٹھے اور وزیروں پر حکم صادر کر دے کہ عید سے پہلے کسی بھی حالت میں فضیلہ کو بازیاب کرائیں ورنہ استعفیٰ کے لیے تیار ہو جائیں۔ بہر حال ایسے خیالات من کو لبھانے کے لیے اچھے ہیں۔ حکومت سندھ کی پچھلے آٹھ سالہ کار کردگی دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان سے امید رکھنا بہروں کے سامنے بین بجانے کے برابر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments