صادق آباد میں اکبر ایکسپریس کو حادثہ: پاکستان میں ریل گاڑی کا سفر کیوں محفوظ نہیں رہا؟


ٹرین

صادق آباد کے قریب کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس کو پیش آئے حادثے میں اب تک 20 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوئے ہیں

راولپنڈی سے کراچی کے لیے چلائی جانے والی ’بہترین سہولیات` سے آراستہ سرسید ایکسپریس ہو یا لاہور سے چلنے والی جناح ایکسپریس یا پھر وزیراعظم کے آبائی علاقے میانوالی کے لیے چلائی گئی نیازی ایکسپریس تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں آئے زور نئی ٹرینوں کا افتتاح تو ہو رہا ہے لیکن ایک زمانے میں محفوظ ترین قرار دیا جانے والا ریل کا سفر پاکستان میں اب اتنا محفوظ نہیں رہا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کے پہلے سال کے دوران بمشکل ہی کوئی ماہ ایسا گزرا ہے جس میں کسی ٹرین حادثے کی خبر سامنے نہ آئی ہو۔

ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہونے والے واقعات کو دیکھا جائے تو اب تک ایک درجن سے زائد ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں تین درحن سے زائد مسافر اور عملے کے ارکان اپنی جان گنوا چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ریلوے سٹیشن آپ کی نظر سے

ٹرین کا انجن پل سے پہلے ہی پٹری سے اتر گیا تھا: سعد رفیق

‘فوجی ٹرین کو حادثہ غیر معمولی تیز رفتاری کے باعث پیش آیا’

ان حادثات کی بڑی وجوہات میں ٹرینوں کا پٹڑی سے اتر جانا یا ٹرینوں کے درمیان تصادم شامل ہے۔

جمعرات کو رحیم یار خان کے قریب پیش آئے حادثے میں کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس ایک مال گاڑی سے ٹکرائی اور اس حادثے میں اب تک 20 سے زائد مسافر ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 60 سے زائد زخمی ہیں۔

ہلاکتوں کی تعداد یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ موجودہ دورِ حکومت میں ریلوے کا سب سے مہلک حادثہ ہے۔

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1149194775502839808

حالیہ حادثے کے بارے میں بتاتے ہوئے سیکرٹری ریلوے کا کہنا تھا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس کو سگنل گرین ملا تھا تاہم کانٹا ڈائریکٹ لائن کے بجائے لوپ لائن کا لگا تھا جہاں پہلے ہی ایک مال گاڑی کھڑی تھی۔

پاکستان میں ٹرین حادثات کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟

سیکرٹری ریلوے سکندر سلطان راجہ کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا انھیں یہ ماننے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان میں ریلوے کا نظام بہت وسیع مگر کافی پرانا ہے اور جس نوعیت کی بحالی کی اسے ضرورت تھی وہ نہیں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹرین حادثات کی تین بڑی وجوہات میں سرِفہرست ریلوے ٹریک سے متعلقہ مسائل ہیں جبکہ رولنگ سٹاک (ریل کے انجن اور بوگیاں) اور ریلوے سگنل کا نظام بھی حادثات کی وجہ بنتا ہے۔

سکندر سلطان نے کہا کہ ‘ان کے علاوہ ہیومن ریسوس یا افرادی قوت کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔’

ٹرین

‘یہ ماننے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان میں ریلوے کا نظام بہت وسیع مگر کافی پرانا ہے اور جس نوعیت کی بحالی کی اسے ضرورت تھی وہ نہیں ہوئی ہے’

یاد رہے کہ پاکستان ریلوے میں اس وقت 23 ہزار سے زائد ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل سٹاف کی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔

سکندر سلطان کے مطابق ریلوے ٹریکس کے مسائل پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں اور ایم ایل-ون (ریلوے کا مرکزی ٹریک جو پشاور سے کراچی کے درمیان ہے) کی مکمل بحالی کا بڑا پراجیکٹ سی پیک کے تحت ہونے والے منصوبوں میں شامل کیا گیا ہے۔

‘موجودہ ٹریکس کو صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہتر لائنز پر ٹرین کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ کمزرو ٹریک پر 40 کلومیٹر تک محدود رکھی جاتی ہے، اور ڈرائیورز کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ حد رفتار سے تجاوز نہ کریں۔’

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ سی پیک کے تحت شروع ہونے والے بڑے منصوبے سے قطع نظر ‘ہمیں مرکزی ٹریک کی بحالی کے چھوٹے منصوبوں پر فی الفور کام کرنے کی ضرورت ہے۔’

سکندر سلطان کا کہنا تھا کہ ٹریک کے حوالے سے سندھ میں سکھر ڈویژن میں صورتحال اچھی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ رولنگ سٹاک یا اضافی انجنوں اور بوگیوں کا مسئلہ ہے تاہم انھیں ٹریک پر اسی وقت لایا جاتا ہے جب ریلوے کے مختلف ڈیپارٹمنٹس ان کے قابل استعمال ہونے کی رپورٹ دیتے ہیں۔

ٹرین

‘بہتر لائنز پر ٹرین کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ کمزرو ٹریک پر 40 کلومیٹر تک محدود رکھی جاتی ہے، اور ڈرائیوز کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ حد رفتار سے تجاوز نہ کریں’

انھوں نے کہا کہ افرادی قوت بشمول ڈرائیورز، اسسٹنٹ ڈرائیورز اور سگنل سٹاف کی کمی کا سامنا ہے اور مجبوری کے تحت نئے لوگ رکھنے کے بجائے ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ رکھا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فنڈر کے مسائل بھی ہیں اور ماضی میں اس طرح کے پراجیکٹس نہیں بنائے گئے جس نوعیت کی سسٹم کو بحالی کی ضرورت تھی۔

‘ماضی میں نئے انجن خریدے گئے اور کافی تعداد میں خریدے گئے مگر رولنگ سٹاک بشمول 800 ویگنز اور 300 کوچز خریدی جانی ہیں اور یہ پراجیکٹ ابھی پائپ لائن میں ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ کچھ مسنگ لنکس ہیں جن کو پلگ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ حادثات میں دیکھا گیا ہے کہ مسئلہ زیادہ ہیومن ایرر (انسانی غلطی) کا نہیں بلکہ پرانے سسٹم میں خرابی کا آ رہا ہے جو حادثات کا باعث بن رہا ہے۔

وزیر ریلوے شیخ رشید کے خیال میں کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ ریلوے ٹریک بہت پرانا ہے اس کو بدلنے اور اس کی بحالی کی اشد ضرورت ہے۔

ٹرین

‘ریلوے ٹریک بہت پرانا ہے اس کو بدلنے اور اس کی بحالی کی اشد ضرورت ہے’

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ریلوے لائن ایم ایل-ون کا پی سی ون پلاننگ کمیشن میں منظوری کے لیے پڑا ہے۔ ‘اس کی منظوری سے کم از کم یہ تو ہو گا کہ 1800 کلومیٹر طویل اور دہائیوں پرانی لائن کو بدلا جا سکے گا۔’

انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں مسائل کا واحد حل ریلوے لائن کو بدلنا ہے۔

افرادی قوت کی کمی پر بات کرتے ہوئے وزیرِ ریلوے کا کہنا تھا کہ حکومت کی منظوری کے بعد 23 ہزار خالی اسامیوں میں سے 10 ہزار پُر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اسامیاں پُر کرنے کے اشتہار پر 12 لاکھ درخواست گزاروں نے اپلائی کیا ہے اور اس کا کوئی حل سوچ رہے ہیں کہ آیا ان کا ٹیسٹ لیں یا بیلٹنگ کریں۔

دریں اثنا مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حالیہ حادثے کی تفتیش جاری ہے اور اس کی روشنی میں مزید اقدامات کیے جائیں گے جب کے انھوں نے ریلوے میں کرپشن کو بھی ایک مسئلہ قرار دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp