سندھ میں انسانی حقوق کی وزارت کے نئے فوکل پرسن کی تعیناتی پر تنازع: ’انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ملزم کو کس ضابطے کے تحت تعنیات کیا گیا یے‘


سندھ میں انسانی حقوق کی وزارت کے نئے فوکل پرسن افتخار لوند کی تعیناتی پر پاکستان کے ایوان بالا میں چیئرمن قائمہ کمیٹی سینیٹ برائے انسانی حقوق مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نوٹس لے لیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ڈی پی او گھوٹکی کو ڈرائیور پر تشدد کے مقدمے کے ریکارڈ سمیت طلب کر لیا ہے۔ اس تعیناتی پر سوال اٹھاتے ہوئے انھوں نے پوچھا کہ بقول ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ملزم کو کس ضابطے کے تحت تعنیات کیا گیا یے۔

’یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو انسانی حقوق کا ترجمان بنایا جائے۔‘

انھوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف حکومت چن چن کر انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں کو آگے لا رہی ہے۔

اسی بارے میں اور پڑھیے

‘پنجاب میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی’

پاکستان میں انسانی حقوق کی کارکن پر سائبر حملے

اقوام متحدہ انسانی حقوق 2018 ایوارڈ عاصمہ جہانگیر کےنام

انسانی حقوق کے قوانین کا ازسرنو جائزہ لینے کا فیصلہ

افتخار لوند کی تعیناتی اور تنازع کا پس منظر

دس جولائی کو پاکستان میں انسانی حقوق کی وزارت نے سندھ میں اپنے فوکل پرسن کے طور پر ضلع گھوٹکی سے تحریک انصاف کے صدر افتخار لوند کو مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس عہدے پر کام کرتے ہوئے افتخار لوند انسانی حقوق کے بارے میں وفاقی وزیر شیریں مزاری کی معاونت کریں گے تاہم یہ خدمات رضاکارانہ طور پر ہوں گی جس کے لیے وزارت انھیں کوئی ادائیگی کرنے کی پابند نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ان پر دو ماہ قبل اپنے ملازم پر تشدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا تاہم افتخار لوند اس الزام کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے سیاسی کارروائی قرار دیتے ہیں۔

ملازم پر تشدد کے الزام کے بعد سیکنڈ سیشن جج گھوٹکی کی عدالت نے پچھلے دنوں میر افتخار لوند کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تھا۔

ان پر اپنے ڈرائیور اللہ رکھیو پر تشدد کرنے کا الزام تھا تاہم بعد میں فریقین میں عدالت سے باہر سمجھوتہ ہوجانے پر عدالت نے افتخار لوند کو بری کردیا تھا۔

میر افتخار احمد خان لوند نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تشدد کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ایک سیاسی انتقامی کارروائی تھی جس کا وہ نشانہ بنے۔

’ہمارے ملک کی سیاست بہت گندی ہے۔ اس میں کسی واقعے سے آپ کا براہ راست کوئی تعلق نہ بھی ہو لیکن پھر بھی آپ کو گھسیٹا جاتا ہے۔ اس میں بھی منشی اور ڈرائیور کا معاملہ تھا لیکن مجھے زبردستی گھسیٹا گیا اور بالآخر عدالت نے انصاف کیا۔‘

میر افتخار لوند نے اللہ رکھیو سے مبینہ طور پر معذرت کرنے سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ یہ ان کے منشی کا معاملہ ہے جنھوں نے ایسا کچھ کیا ہوگا البتہ وہ نہ خود گئے تھے اور نہ انھیں اس بارے میں معلومات ہیں۔

میر افتخار لوند کی تقرری پر انسانی حقوق کی وزرات کا موقف سامنے نہیں آسکا ہے۔ یہ نوٹیفیکیشن وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی سپیشل اسسٹنٹ خولہ بتول کے دستخط سے جاری کیا گیا ہے۔

جب ان کے دفتر سے ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ کیا گیا کہ میر افتخار لوند تشدد کے الزام کے بعد ایک متنازعہ شخصیت رہے ہیں تو ان کی تعیناتی کن بنیادوں پر ہوئی، تو وفاقی سیکریٹری وزرات انسانی حقوق سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا گیا اور جب سیکریٹری کے دفتر رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ڈی جی محمد ارشد سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی جی وزرات انسانی حقوق محمد ارشد نے واضح کیا کہ وہ میر افتخار کی تعیناتی اور ان کے پس منظر سے لاعلم ہیں لہذا وزارت سے ہی رابطہ کیا جائے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر کے ذریعے بھی وفاقی وزیر شیریں مزاری کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

میر افتخار خان لوند کون ہیں؟

میر افتخار احمد خان لوند تحریک انصاف سندھ کے سابق نائب صدر ہیں اور گذشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں گھوٹکی سے امیدوار تھے جس میں انھوں نے 25 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ وہ لارنس کالج مری اور اس کے بعد خیرپور یونیورسٹی سے گریجوئیٹ ہیں۔

میر افتخار نے اپنے فیس بک پیج پر اپنی تعیناتی کے نوٹیفیکیشن کی تصویر بھی لگائی اور ساتھ میں تحریر کیا ہے کہ ’شکریہ عمران خان وزیراعظم پاکستان، شکریہ پاکستان تحریک انصاف اور دل و جان سے شکریہ گھوٹکی کے عوام۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے میر افتخار لوند کا کہنا تھا کہ ان کا منصب ایک وزیر کے اسسٹنٹ کے برابر ہوگا۔ وہ سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کریں گے۔

تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ اس سے قبل ان کا کسی انسانی حقوق کی تنظیم یا تحریک سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp