سُروں پر سَر قربان کرنے والا حاتم طائی سے زیادہ سخی بادشاہ


ہر معاشرے اور اس سے وابستہ زبانوں کے ادب میں کئی لوک داستانیں مقبُول ہوتی ہیں، جن پر سو فیصد سچ کا گمان کرنا خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ تَوہمّات کی طرح یہ لوک داستانیں بھی مشرق تا مغرب ہر معاشرے میں پائی جاتی ہیں، چاہے وہ معاشرہ کتنا ہی بالغ نظر اور سُدھرا ہُوا کیوں نہ ہو۔ ہر خطّے کی طرح ہماری سرزمین کے ادیبوں نے بھی ان لوک رومانوی داستانوں، قصّوں، کہانیوں اور باتوں کو یکسر رد نہیں کیا اور ناں ہی سراسر ناپید کہا، بلکہ ان کو ’نیم تاریخی‘ درجہ دے کر، اُن میں سے کُچھ کہانیوں کے کچھ کرداروں کے واقعی گُذرنے یا ان میں سے کچھ کہانیوں کے کچھ حصّوں کے ممکنات کے گُمان کو برقرار رکھا ہے۔

سندھ میں بھی دنیا کے باقی خطوں کی طرح کئی لوک داستانیں مقبُول ہیں۔ جن میں سے کچھ رُومانی قصّے ہیں اور باقی مختلف جذبات کی عکاسی کرنے والی کہانیاں ہیں، جن کا ذکر سندھی ادب کے ابتدائی ایّام سے شاعری خواہ نثر میں ہوتا رہا، مگر ان میں سے کچھ قصّوں کو دوام جب ملا، جب شاعروں کے سرتاج، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے اپنی شاعری میں اُن کا ذکر کر کے اُنہیں ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔ ان قصّوں میں سے ایک قصہ ’سورٹھ اور رائے ڈیاچ‘ کا بھی ہے، جس میں ’رائے ڈیاچ‘ کَچھ کاٹھیاواڑ (موجودہ بھارت کی حدُود میں واقع) کے راجا اور ’سورٹھ‘ اُن کی ملکہ ہیں۔

یہ قصہ سُروں (موسیقی) پر جان قُربان کرنے کی رُوداد بیان کرتا ہے۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ اس قصّے کا نام ’سورٹھ رائے ڈیاچ‘ کیوں ہے؟ حالانکہ اس داستان کے مرکزی کردار ’رائے ڈیاچ‘ نامی بادشاہ اور ’بِیجل‘ نامی وہ سازندہ ہے، جس نے رائے ڈیاچ کی جان لی، لہذا اُصُولاً اس داستان کا نام ’بِیجل۔ رائے ڈیاچ‘ ہونا چاہیے تھا۔ آج میں آپ کی مُلاقات، اس سخی بادشاہ ’ڈیاچ‘ کے ساتھ ساتھ اُس حرفتی سازندے ’بِیجل‘ سے بھی کروانے والا ہُوں، جس نے اپنے معمُولی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اپنے پَرستار اور فن کے دلدادہ بادشاہ رائے ڈیاچ کی جان لی۔

جان کی صدا لگانے والا اور اپنے فن کے ”دان“ کے طور پر کَچھ  کاٹھیاواڑ کے بادشاہ، رائے ڈیاچ کی سخا کی آزمائش لینے کے لئے اُس کا سَرقلم کروانے والا، ’مانگنے والا‘ سازندہ (جس کو سندھی میں مخصُوص اصطلاح کے تحت ’منگتو‘ کہا جاتا ہے ) ، کا ذکر اِس داستان کے اہم کردار کے طور پر ہوتا ہے۔ رائے ڈیاچ نے اپنی سخاوت اور فن پروری کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتے ہوئے، سوالی کو واپس نہیں کیا اور وہ اس مانگنے والے کو داد و تحسین کے طور پر اپنا سر کاٹ کے دینے کے بعد سُرخرُو ہُوا۔ سندھ کی روایات میں ’دَس سخیوں‘ کا ذکر واضع انداز میں ملتا ہے، جن کو ’10 داتار‘ کہا جاتا ہے، جن کی نظیر کے طور پر عرب روایات والے سخی، ’حاتم طائی‘ کا شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ رائے ڈیاچ، اُن 10 سخی بندوں میں سرِفہرست ہے۔

گوکہ ان لوک رومانوی داستانوں کے ادوار کا تعیُّن نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ابھی یہ ہی طے نہیں ہے کہ آیا یہ سب کچھ گزرا بھی تھا یا نہیں، مگر نیم تاریخی روایات کے مطابق، اس قصے کے آغاز کا دورِ وقُوعہ 1003 ء کا سال بتایا جاتا ہے (جس کے آسپاس بِیجل پیدا ہوا) ، جب جُوناگڑھ پرسما دور کے حکمران، رائے ڈیاچ کی حکومت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اُس کی ایک بہن اولاد کے لئے ترستی تھی۔ ایک بار کسی فقیر نے اُسے دعا دی کہ: ”تمہیں بیٹا ضرور ہوگا، مگر وہ رائے ڈیاچ کا سر اُس کے دَھڑ سے الگ کردے گا۔

” یہ سُن کرراجکماری کے چَھکے چُھوٹ گئے۔ اُس راجکماری کے وہاں بیٹا ہُوا بھی، مگر اُس فقیر کی بات راجکماری کو یاد تھی، لہذا اُس نے اپنے بھائی کی جان کو عزیز مانتے ہوئے اپنے نومولود بیٹے کو صندُوق میں ڈال کر دریا بُرد کردیا۔ وہ صندُوق ڈولتی تیرتی، پڑوسی دُشمن ریاست، راجا انیرائے کے مُلک میں جا نکلی۔ ایک بنجارہ (چارَن) اور اُس کی بے اولاد بیوی اُس دریا سے پانی بھرنے آئے، جن دونوں کو وہ صندُوق ہاتھ آگئی۔

اُس میں سے نومولود بچہ برآمد ہوا تو دونوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے اس بچّے کو گود لے لیا اور اس کا ’بِیجل‘ نام رکھا۔ بِیجل جب جوان ہواتو اُسے گدھوں اور گھوڑوں کو چَرانے کے لئے جنگل بھیجا جانے لگا۔ روایت کے مطابق کسی شکاری نے ایک ہرن کا شکار کر کے اُس کی آنتیں کسی درخت پر پھینک دی تھیں۔ جب جنوبی ہوائیں چلتیں تو اُن آنتوں میں سے اتنی مدھُر آوازیں نکلتی تھیں کہ اُس جنگل کے سب چرند و پَرند اور دیگر جانور اُس درخت کے آس پاس جمع ہو جاتے تھے۔

ایک دن یہی آواز بیجل کے کانوں تک بھی پہنچی اور اُس نے اس آواز کے سوز و گُداز کا راز جان لیا اور ہرن کی وہی آنتیں اُس نے اپنے ’کینرو‘ نامی ساز پر چڑھا کر اُس سے وہی مدُھر سُر نکالنا شروع کر دیے۔ اس ساز کو ’سرُندو‘ بھی کہا جاتا ہے، جس کے تار، ’گَز‘ کی مدد سے جب ہرن کی اُن آنتوں سے چُھوتے ہوئے پُرسوز آواز نکالتے تھے، تو بِیجل کے سرندو کی اس صدا پر بھی جانور اور دیگرچَرند و پرند اکٹھے ہوجایا کرتے تھے۔

اس ساز اور اُس کے بجانے کی وجہ سے بِیجل کی شہرت کا ڈنکا پُورے علاقے میں سُنائی دینے لگا۔ جب راجکماری (رائے ڈیاچ کی بہن) کے وہاں بِیجل کی ولادت ہوئی تھی، اُنہی دنوں راجا انیرائے کے وہاں بھی بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انیرائے کی اُس بیٹی سے پہلے بھی بہت ساری بیٹیاں تھیں اور اب کہ اُسے بیٹے کی آس تھی۔ مگر اُس بار بھی بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے اُس نے اُس بیٹی کو صندُوق میں ڈال کر دریا کی نذر کردیا تھا۔

اور اتفاق سے وہ صندُوق رائے ڈیاچ کی ریاست، جُوناگڑھ میں جا پہنچی، جوصندُوق، رائے ڈیاچ کی رعایہ میں سے ’رَتنو‘ نامی کمہار کو ہاتھ آئی تھی، جو بے اولاد تھا، جس نے اُس لڑکی کو بڑے پیار سے پال پوس کر جوان کیا، جس کا نام اُس نے ’سورَٹھ‘ رکھا تھا۔ سورٹھ جب جوان ہوئی تو اُس کے حسن کی تعریف پُوری ریاست کے ساتھ ساتھ پڑوس کی ریاست تک میں گُونجنے لگی، جو تعریف سُن کے راجا انیرائے نے سورٹھ کے لئے رَتنو کُمہار کو اپنا رشتہ بھیجا، جو رتنو جیسے غریب کُمہار نے خوشی خوشی قبول کرلیا۔

(راجا انیرائے کوذرّہ برابر بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی ہی بیٹی سے شادی کرنے جا رہا ہے۔ ) جب رَتنو، مُقررہ دن پر انیرائے کے دیس سے آنے والی اپنی بیٹی کی بارات کی راہ دیکھ رہا تھا، تو رائے ڈیاچ کو اُس کے مُخبروں کے ذریعے یہ پتہ چل گیا کہ اس کی ریاست کی ایک اپسرا کی، پڑوسی دُشمن ریاست میں شادی ہونے جا رہی ہے۔ یہ جان کر رائے ڈیاچ نے اسی وقت سورٹھ کو اغوا کر کے اپنے محل میں لاکر اُس سے فوراً شادی کرلی۔

یہ خبر جب انیرائے کو ہوئی، تو اُس کی رائے ڈیاچ کے ساتھ دشمنی میں اور اضافہ ہوا اور اُس نے ایک بڑا لشکر لے کر رائے ڈیاچ کی ریاست جُوناگڑھ پر دھاوا بول دیا۔ کہا جاتا ہے کہ انیرائے نے پُورا ایک سال جُوناگڑھ کا گھیراؤ کررکھا، مگر جب رائے ڈیاچ کی فوجوں نے اُسے جُوناگڑھ میں داخل ہونے نہیں دیا تو وہ مایوس و ناکام ہوکر اپنی ریاست واپس لوٹا اور یہ اعلان کرایا کہ: ”جو شخص مُجھے رائے ڈیاچ کا سَر قلم کر کے لاکر دے گا، اُسے ہیرے جواہرات کے ساتھ ساتھ مُنہ مانگا انعام بھی دیا جائے گا۔

” بِیجل کی بیگم کا دل للچایا اور اُس نے اپنے شوہر کی منّت و سماجت کی اور ضد باندھی کہ: ’تم جاکر رائے ڈیاچ کی جان لے آؤ، تاکہ ہم امیر ہو جائیں اور ہم بھی زندگی کی آسائشیں حاصل کرسکیں۔ ‘ جُونا گڑھ اور اس کے آسپاس میں رائے ڈیاچ کی فن نوازی کے قصّے بڑے مشہُور تھے اور یہ بات سب کے علم میں تھی کہ رائے ڈیاچ فن نوازی میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ بیوی کے اسرار پر بِیجل سُروں سے رائے ڈیاچ کی جان لینے کے لئے جُوناگڑھ روانا ہُوا، جہاں پہنچ کراُس نے رائے ڈیاچ کے محل کے آسپاس اپنا ساز (سُرندہ) بجانا شرُوع کیا۔

جہاں دُوردُور تک رائے ڈیاچ کی سخاوت کے گُن مشہُورتھے، وہیں بِیجل کے سُرندو کے تاروں کے درد کی شہرت بھی پھیل گئی، جو جب رائے ڈیاچ کی سماعت سے ٹکرائی، تو اُسے بھی مسرور و سرشار کرنے سے رہ نہ سکی۔ ایک دن رائے ڈیاچ نے اپنے محل کی کھڑکی کھول کر کہا: ’اے مانگنے والے سازندے! مانگ! جو مانگنا ہے! ‘ جس پر بِیجل نے کہا کہ: ’مُجھے آپ سے تخلیے میں کُچھ مانگنا ہے۔ ‘ بادشاہ کے حکم سے بِیجل کو ڈولی میں بٹھا کر مکمّل تعظیم کے ساتھ محل کے اندرلایا گیا۔

جہاں آکر بِیجل نے اتنا مست ہوکر سُرندہ بجایا کہ رائے ڈیاچ نے اُس پر موتیوں اور ہیروں کی برسات کردی۔ بیجل اور مست ہوکر کینرو بجاتا رہا۔ راجا نہیں چاہتا تھا کہ یہ سوالی اُس کے در سے واپس جائے اور راجاؤں کی سخاوت کی روایت پرکوئی آنچ آئے، اس لئے رائے ڈیاچ نے پھر بیتاب ہوکر بِیجل سے کہا: ’مانگ! جومانگنا ہے! ‘ ۔ بیجل نے کہا: ’رائے ڈیاچ! میرے پاس مال کی کمی نہیں ہے۔ میں تو آپ کے سَر کا سوالی ہُوں۔ ‘ ذرا سے تذبذُب کے بعد رائے ڈیاچ نے تلوار سے اپنا سر خُود قلم کیا، جو بِیجل کے فن کے نذرانے کے طور پر اُس کے قدموں میں جاگِرا۔

جب بِیجل، رائے ڈیاچ کا کٹا ہوا سَر لے کر انیرائے کے دربار میں پہنچا، تو انیرائے نے اُسے یہ کہہ کر ذلیل و خوار کر کے دھتکار دیا کہ: ’تم جب اتنے بڑے سخی، فن نواز، غریب پرور اور اپنے اتنے بڑے پرستار کا سر قلم کرسکتے ہو، تو ہمارے کون سے سجن بنوگے۔ ‘ یہ کہہ کر انیرائے نے بِیجل کو اپنی ریاست سے نکال دیا۔ وہاں سے خواری کا ہار گلے میں پہن کر، بِیجل واپس جُوناگڑھ پہنچا کہ سورٹھ سے اُس کے راجا کو قتل کرنے کی معافی مانگ سکے، مگر جب وہ رائے ڈیاچ کے محل میں پہنچا، تو اُس نے بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے دیکھے، جس میں سورٹھ اپنے آپ کو اپنے سہاگ اُجڑنے کے غم میں بَھسم کرچکی تھی۔ بِیجل نے پچھتاوے کے مارے خود کو بھی اُسی آگ میں جلا دیا۔

سندھ میں یہ داستان، سخاوت، شجاعت اور سُروں (موسیقی) سے مُحبّت کی مثال کے طور پر یاد کی جاتی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ: ’یہ سُروں پر سَر قربان کرنے کی سرزمین ہے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).