صادق سنجرانی سے انوارالحق کاکڑ تک


پاکستان میں ”اصولی“ نہیں ”وصولی“ یعنی ”نظریاتی“ کی بجائے ”مالیاتی“ سیاست کا دوردورہ ہے اس لیے ہمارے سیاستدانوں کے درمیان دوستی اوردشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ یہ اپنے اپنے نجی ”مفادات“ کے لئے دیرینہ ”تنازعات“ اور ”تضادات“ کوفراموش کردیتے ہیں۔ انتخابات میں ”نصرت“ کے لئے معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف ”نفرت“ کو ہوا دینے والے آج نظریہ ضرورت کے تحت متحد اورنیب سمیت ریاستی اداروں کے خلاف متحرک ہیں۔ ڈیل اورڈھیل کے لئے حکومت پر دباؤ برقراررکھنا متحدہ اپوزیشن کی ضرورت ہے، مگر اس بار شریف خاندان اورزرداری خاندان کا واسطہ فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نہیں بلکہ ایک ضدی پٹھان عمران خان سے پڑا ہے کیونکہ کپتان کی سیاست کا مصلحت کی گلی سے گزر نہیں ہوتا۔

آج مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کا ”قرب“ دیکھیں تو 1990 ء والی ”کرب“ سے بھرپوردہائی یاد آ جاتی ہے جب یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی رسوائی اور پسپائی کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑا کرتی تھیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو ”چور“ کہا کرتے تھے اورآج دونوں کی ”چوری“ منظرعام پر آ گئی اوردونوں بڑے چور قانون کی گرفت میں ہیں۔ ایوان سے زندان کا سفرطے کرنے والے زندگی بھر دولت کماتے رہے مگر عزت کمانا بھول گئے اوراب ووٹ کوعزت دو کا نعرہ لگا رہے ہیں۔

انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف چوری کے مقدمات بنائے اور آج دونوں چوروں کو سخت احتساب کا سامنا ہے۔ ایوانوں سے زندانوں تک چوروں کا زر، زور اور شورہماری ریاست، سیاست اورمعیشت کے لئے زہرقاتل ہے۔ چور سیاستدان دونوں ہاتھوں سے قوم کا پیسہ چوری اور پھر اس پیسے کے بل پر اپنا دفاع کرتے ہیں۔ عوام چور بچاؤ سیاست کو اپنے خون اور جنون سے سیراب نہ کریں ورنہ اس ملک سے مہنگائی، بیروزگاری اورکرپشن کا عذاب نہیں ٹلے گا۔

متحدہ اپوزیشن نے پی ٹی آئی حکومت کو انڈرپریشر کرنے اور کرپشن کے خلاف جاری آپریشن روکنے کے لئے معتدل، مخلص، محب وطن، بے ضرر اور تحمل مزاج والے صادق سنجرانی کو تحریک اعتماد کی مدد سے ہٹانے کا فیصلہ کرتے ہوئے قرارداد سینیٹ سٹاف کے سپرد کر دی ہے۔ اس تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ اپوزیشن پارٹیوں کی اے پی سی میں کیا گیا تھا مگرخفیہ رائے شماری کے نتیجہ میں اپوزیشن کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ متحدہ اپوزیشن میں دم ہے توعدم اعتماد کا فیصلہ خفیہ رائے شماری سے ہونے دے۔

اگر عام انتخابات میں شہریوں کے لئے اپنا ووٹ خفیہ رکھنا انتہائی ضروری ہے تو پھر ایوانوں میں ووٹ کاسٹ کر تے وقت اس قانون کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔ نام نہاد منتخب حکمران اپنی شخصی آمریت کے استحکام اور دوام کے لئے جمہوری اقدار کی دھجیاں بکھیرتے رہے۔ پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ دینے کی صورت میں ممبر اسمبلی ڈی سیٹ ہوجائے گا، یہ قانون کسی فوجی ڈکٹیٹرکے فرمان سے نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان گٹھ جوڑ سے بنا تھا۔

اس قانون نے منتخب نمائندوں کو اپنی اپنی پارٹی قیادت کا غلام بنا دیا ہے، وہ اپنے ضمیر کی آواز نہیں سن سکتے۔ پی ٹی آئی نے جہاں پروڈکشن آرڈر میں ترمیم کا بیڑا اٹھایا ہے وہاں زندانوں سے ایوانوں میں آنے والے راستے بھی بند کرنے کے لئے اپنا کردارادا کرے، یعنی کسی اسیر کو زندان میں بیٹھ کر الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو اور ایوانوں میں رائے شماری صرف اور صرف خفیہ اندازسے ہو۔ اس طرح یقیناً ارکان کے نزدیک جو فیصلہ یا امیدواربہتر ہو گا وہ اس کے حق میں ووٹ دیں گے۔

اپوزیشن قائدین کوغصہ وزیراعظم عمران خان پر ہے مگر ان کے انتقام کا نشانہ صادق سنجرانی بن رہے ہیں۔ اپنے نام کی طرح سچے، سلجھے اوراجلے دامن والے صادق سنجرانی پر متحدہ اپوزیشن کی طرف سے کوئی چارج شیٹ نہیں لگائی گئی کیونکہ ہر کوئی صادق سنجرانی کو قدر بلکہ رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستانیت کے علمبردارصادق سنجرانی جس طرح سینیٹ میں احسن انداز سے سب کو ساتھ لے کر چلے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ صادق سنجرانی شروع دن اور بالخصوص اپنے انتخاب کے وقت سے سیاست، منافرت اورصوبائیت سے بہت دور ہیں، انہوں نے مثبت کردار سے اپنے منصب کا وقار اور اعتماد بحال کیا ورنہ ماضی میں چیئرمین سینیٹ کا عہدہ سیاست زدہ کر دیا جاتا تھا۔

صادق سنجرانی کا تعلق پاکستان کے خوبصورت صوبہ بلوچستان سے ہے اور بحیثیت چیئرمین سینیٹ ان کے انتخاب کو فیڈریشن کی مضبوطی کے لئے بہت خوش آئند قرار دیا گیا تھا۔ بلاشبہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اپنے صادق جذبوں اورآئینی قدروں کے ساتھ اپنا فرض منصبی ادا کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف اپوزیشن کی منفی سیاست ریاست اورقومی وحدت کے لئے نیک شگون نہیں۔ بلوچستان سے نیک نام سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، بلوچستان کے باکمال اور فعال وزیراعلیٰ میر جام کمال خان، بلوچستان کے سابق دبنگ اور پرجوش وزیرداخلہ سرفراز خان بگٹی اور بلوچستان کے سابق زیرک اور سحرانگیز ترجمان سینیٹر انوارالحق کاکڑ پرکوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میرجام کمال خان خاموشی مگر جانفشانی اور تندہی سے اپنا کام کر رہے ہیں، وہ دوسرے وزرائے اعلیٰ کی طرح زیادہ باتیں نہیں کرتے مگر ان کا کام بولتا ہے۔ میرجام کمال خان کی جہدمسلسل سے بلوچستان میں امن وامان کی مجموعی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ میں بلوچستان کے سابق وزیرداخلہ سرفرازخان بگٹی کو قومی افق پر مس کرتا ہوں، وہ ایک باصلاحیت منتظم ہیں ان سے قومی سطح پر کام لیا جائے۔

بلاشبہ پاکستان کا وجود ایک نور ہے جبکہ سینیٹرانوارالحق کاکڑ کا قلب اسلامیت اور پاکستانیت کے نور سے منور ہے۔ انوارالحق کاکڑ واقعی حق کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوتے ہیں، انہوں نے ماضی قریب میں حکومت بلوچستان کے ترجمان کی حیثیت سے اپنے منصب کے ساتھ بھرپورانصاف کیا اور شعبہ سیاست وصحافت سمیت معاشرے کے سنجیدہ طبقات کو اپنا گرویدہ بنایا۔ سینیٹرانوارالحق کاکڑ محب وطن پاکستانیوں کے لئے ایک رول ماڈل ہیں۔ وہ اپنے لہجے اور الفاظ سے بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھتے اور غیور بلوچ بھائیوں کی محرومیوں کا مداوا کرتے رہے۔

انوارالحق کاکڑ بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی توانا آواز ہیں۔ راقم نے جب بھی انوارالحق کاکڑ کو مختلف ٹاک شوز میں قومی اورعالمی موضوعات پربات کرتے ہوئے سنا وہ پاکستان کی بھرپوروکالت اورمادروطن سے والہانہ محبت کا حق ادا کرتے ہیں، اگران سے عالمی میڈیا میں پاکستان کے لئے وکالت اورسفارت کاری کا کام لیا جائے تو ہماری قیادت اور قوم ان کی انتھک خدمات پر رشک کرے گی۔ استدلال اور استقلال کے ساتھ گفتگو کرنے میں انوارالحق کاکڑ کا کوئی ثانی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے پاس ترجمانوں کی فوج ہے مگر ان کے پاس ایک بھی انوارالحق کاکڑ نہیں۔ اگرپاکستان میں واقعی قابلیت، اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر وزرات ملتی تو یقینا سینیٹر انوارالحق کاکڑ اس وقت پاکستان کے وفاقی وزی راطلاعات ہوتے۔

مولانا فضل الرحمن اور مریم صفدرکی ”نیوز سینس“ سے انکار نہیں، انہیں چھینک بھی آ جائے تو ہمارے نجی ٹی وی بار بار خبر نشر کر کے ہلکان ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ دونوں شخصیات اس وقت ایوان سے باہر ہیں۔ مریم صفدر کو تو مستقبل میں کوئی معجزہ ایوان میں پہنچا سکتا ہے کیونکہ ان کے مشیر ان کے شوہرکیپٹن (ر) صفدر ہیں جبکہ وہ خود اپنے والد میاں نواز شریف کی مشیر ہیں۔ راقم کے نزدیک سیاست میں مریم صفدر کے فعال ہونے سے مسلم لیگ (ن) کا ڈاؤن فال شروع ہوا۔

مریم صفدر کا ضرورت سے زیادہ جارحانہ اورعاقبت نا اندیشانہ طرز سیاست مسلم لیگ (ن) کے اندرشہبازشریف دھڑے کی مضبوطی کا سبب بنا۔ شہبازشریف دن بدن مسلم لیگ (ن) پر اپنی گرفت مزید مضبوط بنا رہے ہیں اس لیے مریم صفدر کے بیانیہ کو مسلم لیگ (ن) میں پذیرائی ملی نہ آئندہ ملے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے سنجیدہ لوگ مریم صفدر کی ہر بات سے متفق نہیں ورنہ وہ اجتماعی استعفوں سے دو ٹوک انکار نہ کرتے۔ میں سمجھتا ہوں اگر ڈان لیک سے چشم پوشی نہ کی جاتی تو آج ویڈیو لیک نہ ہوتی، اگراب ویڈیو لیک میں ملوث کرداروں کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا گیا تو ہمیں مستقبل میں کسی مزید ”لیک“ کے لئے تیار رہنا ہو گا۔

اگراے پی سی کی ناکامی کے بعد متحدہ اپوزیشن کو مردہ اپوزیشن کہا جائے تو بیجا نہیں ہو گا، احتساب کے سونامی کا سامنا بلکہ مقابلہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اس لیے اپوزیشن کو بار بار اپنی پوزیشن پر کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک اعتماد کے دوران اپوزیشن کی پوزیشن یعنی عددی برتری پوری طرح کلیئر ہو جائے گی اوران کا زعم ایک زخم بن کررہ جائے گا۔ میں عنقریب اپوزیشن پارٹیوں کو باہم دست وگریباں ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

جس جس پارٹی کی قیادت نے ملک وقوم کے ساتھ فراڈ کیا اس اس میں فاروڈ بلاک ضرور بنے گا۔ چیئرمین سینیٹ کے لئے نواز شریف اورشہبازشریف کے پاس اپنا اپنا امیدوار ہے۔ نواز شریف اور مریم صفدر کا ہاتھ اپنے جیالے پرویز رشید کی پشت پر ہے جبکہ شہبازشریف کے نزدیک بزرگ اور زیرک راجا ظفرالحق اس منصب کے زیادہ حق دار ہیں۔ پیپلزپارٹی نے حاصل بزنجوکو چیئرمین سینیٹ کے لئے نامزد کیا ہے، ہوسکتا ہے مسلم لیگ (ن) بھی حاصل بزنجو کے نام پر متفق ہو جائے مگر متحدہ اپوزیشن کی کاوش ”لاحاصل“ رہے گی۔

صادق سنجرانی کو ہٹانے اور حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کی سیٹ پر بٹھانے سے ملک اور متحدہ اپوزیشن کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ معاشی بحرانوں سے نبردآزما پاکستان اس وقت کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان، سینیٹر انورالحق کاکڑ اور سرفراز خان بگٹی سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے باضمیر ارکان بلوچستان کے قابل فخرسپوت صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی میں کلیدی کردارادا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).