ادیبوں اور شاعروں کا ذوق شراب


ایک یونانی کہاوت ہے”کوئی گیت لمبی عمر نہیں پا سکتا اور زیادہ دیر مسرت نہیں بخش سکتا اگر اسے کوئی ایسا شاعر لکھے جو پینے میں فقط پانی پیتا ہو“۔ ہمارے بعض نامور ادیب اور شاعر اس کہاوت پر باقاعدہ ”ایمان“ لائے اور اپنے اس ایمان کی تازگی کے لیے وقفے وقفے سے عملی طور پر ”مشق“ بھی فرماتے رہے۔

اسی سلسلے میں احمد ندیم قاسمی صاحب فرماتے ہیں ”ایک مرتبہ ہمارا وفد چین کے دورے پر تھا۔ اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے نامور ادیب شامل تھے۔ ایک رات جھیل کنارے محفل منعقد ہوئی۔ بہت سے لوگ پینے پلانے میں مصروف ہو گئے۔ میں نے اپنے لیے سنگتروں کا رس منگوا لیا۔ اتنے میں فیض احمد فیض نے مجھ سے شراب پینے پر اصرار کیا مگر میں نے شائستگی سے انکار کر دیا۔ اس پر انہوں نے میرے گلاس میں شراب انڈیل دی۔ میں نے سارا گلاس جھیل میں انڈیل دیا۔ فیض احمد فیض صاحب وقتی طور پر ناراض ہو گئے“۔ احمد ندیم قاسمی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں ایک روز صوفی مصطفی تبسم نے بھی کافی اصرار کیا اور یہاں تک کہا کہ انہوں نے میرے لیے اعلی ولایتی بوتل سنبھال رکھی ہے۔ انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کی اس کی خبر کسی کو نہ ہو گی۔ میں نے بڑے احترام سے معذرت کی تو جزبز ہوئے اور کہنے لگے شراب میں کوئی ایسی بری بات نہیں جو اسے اتنا برا بنا دیا گیا ہے۔ چند روز بعد ملے تو بے اختیار بولے آپ کے حصے کی شراب ذوالفقار بخاری پی گئے۔ اس پر میں نے شکر ادا کیا۔

عرفان جاوید لکھتے ہیں کہ قاسمی صاحب سے ملنے گیا تو وہاں ایک صاحب سے نظریں چار ہوئیں۔ وہ شرارتی مسکراہٹ والے صاحب احمد فراز تھے۔ وہی احمد فراز جن سے پوچھا ”خود نوشت“ کیوں نہیں لکھتے تو جواب دیا کہ”اگر اپنی سوانح لکھوں گا تو سچ لکھوں گا، اس سے کئی شادیاں ٹوٹنے کا اندیشہ ہے، سو اسے نہ لکھنا بہتر ہے“۔

عرفان جاوید کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں، اس وقت کمرے میں جلیل عالی، تسنیم منٹو اور منصورہ احمد بھی موجود تھے۔ باتوں باتوں میں احمد فراز کہنے لگے”ایک تو یہ ایئر پورٹ حکام ہر بار میری شراب پکڑ لیتے ہیں“۔ اس پر منصورہ نے لقمہ دیا کہ ”آپ انہیں نہ بتایا کریں کہ آپ بوتلیں لے کر آ رہے ہیں“، فراز مسکراتے ہوئے بولے ”یہی تو مسئلہ ہے۔ مسافروں میں میری شکل دیکھتے ہی حکام کہتے ہیں اور کوئی ہو نہ ہو، یہ کم بخت فراز شراب کی بوتلیں ضرور لا رہا ہو گا اور ہر مرتبہ مجھ سے بوتلیں برآمد ہو جاتی ہیں“۔ بات مکمل ہوئی تو کمرے میں قہقہے گونجے۔ انھوں نے قاسمی صاحب کو شرارت سے دیکھا اور بولے”عرصہ پہلے قاسمی صاحب کے گردے میں پتھری ہو گئی۔ میں نے مشورہ دیا یہ پانچ سات لیٹر بیئر پی لیں، پتھری خود بخود نکل جائے گی“۔ جس پر قاسمی صاحب بے اختیار بول اٹھے ”لا حول ولا قو ۃ“۔

عرفان جاوید لکھتے ہیں کہ فراز فر ماتے ہیں میں رات گئے تک کتابوں کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ میں (عرفان جاوید) نے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ گنتی کے چند دن ہوں گے جب انہوں نے روزانہ نہ پی ہو، تو یہ مطالعہ کیسا؟ فراز صاحب بولے ایسا نہیں کہ مدہوشی کی حد تک پیتا ہوں، بس دو پیگ پیتا ہوں اور پھر مطالعہ کرتا ہوں۔ میں نے پھر پوچھا ”یعنی کوئی بلائے اور پلائے تو آپ حساب نہیں رکھتے؟“تو فراز صاحب بولے ”میزبانوں کا دل نہیں توڑتا“۔

معروف ناول نگار و صحافی احمد بشیر صاحب نے اپنے خاکوں اور سوانحی ناول میں اپنی ”مے نوشی“ کا ذکر کھلے دل سے کر رکھا ہے۔ مولانا چراغ حسن حسرت کی بابت شراب کے تذکرے پر انہیں دینی حلقوں کے غیظ و غضب کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

بھارتی اداکارہ ”مینا کماری“ سے عشق کی داستان رکھنے والے شکیل عادل زادہ اس فرماں بردار بیٹے کا قصہ شوق سے سناتے تھے جو اپنے والد کے لیے شراب اپنے ہاتھ سے کشید کرتا تھا۔ نامور مصور اقبال مہدی بھی ”شراب نوشی“ کے شوقین تھے اور انھیں کثرت ِبادہ نوشی لے بیٹھی۔

احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں ”شراب کی لت تو ایک بیماری تھی جو منٹو کو لگ گئی وگرنہ اس کے اندر ایک حساس اور زندہ دل دھڑکتا تھا“۔ منٹو سے آخری ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے قاسمی صاحب نے کہا میں نے منٹو کو کثرت مے نوشی سے منع کیا تو بولے ”احمد ندیم قاسمی! میں نے تمھیں اپنا دوست بنایا ہے، اپنے ضمیر کی مسجد کا امام نہیں بنایا“۔ شاید منٹو صاحب جوانی میں غالب صاحب کا یہ واقعہ سن بیٹھے تھے کہ کسی نے غالب کے سامنے شراب کی برائیاں بیان کیں اور کہا کہ شرابی کی تو دعا بھی قبول نہیں ہوتی، غالب یہ سن کر بولے ”بھائی جس کو شراب میسر ہے اس کو اور کیا چاہیے جس کے لیے دعا مانگے “۔

ایک دفعہ قاسمی صاحب برطانیہ میں ساقی فاروقی کو ملے۔ پوچھنے پر بتایا ساتھ احمد فراز بھی ہیں۔ ساقی نے احمد فراز کی برائیاں بیان کرنا شروع کر دیں، اتنے میں فراز بھی کمرے میں داخل ہوئے تو ساقی محبت سے فراز کے گلے ملے جس پر فراز مسکراتے ہوئے بولے ”بھلا یہ شراب بھی آدمی سے کیا کچھ کراتی ہے“۔

ایک قصہ مشہور ماہرِ موسیقی رفیق غزنوی کا ہے۔ غزنوی صاحب کراچی میں مقیم تھے کہ احمد ندیم قاسمی اور فیض کو اپنے ہاں لے گئے اور سامنے بیئر رکھ دی۔ فیض صاحب نے بتایا کہ بیئر سے قاسمی صاحب تو اجتناب کرتے ہیں تو غزنوی صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ کیا وہ بیئر جیسی ٖغیرنشہ آور چیز بھی نہیں پیتے، وہ تو گنے کے رس کی سی بے اثر شے ہے۔ اس پر قاسمی صاحب نے کہا غزنوی صاحب کے عزیز سعادت حسن منٹو نے بیئر کے حوالے سے غزنوی صاحب کے متعلق کچھ اور ہی کہا ہے۔ رفیق غزنوی کے کان کھڑے ہو گئے ”کیا بکواس کی تھی اس کشمیری نے؟“

قاسمی صاحب نے انکشاف کیاکہ منٹو کہتا تھا رفیق غزنوی کا سا مضبوط جثے کا آدمی بیئر کی دو بوتلیں پی کر لڑھک جاتا ہے اور اس سے ایک خاص لفظ ٹھیک سے نہیں بولا جاتا۔ غزنوی یہ سن کر ہنس پڑے اور کہا ”منٹو بہت فضول بک بک کرتا ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).