صحافی کی دیہاڑی اور ماں جی کے 33 روپے 33 پیسے


وہ تو بھلا ہو، قسمت اچھی تھی۔ ماں جی پنشنر تھیں۔ والد صاحب مرحوم کی پنشن نے آخری دم تک ان کی خودداری اور خوداعتمادی کو ٹھیس نہیں پہنچنے دی۔ ہم بہن بھائی جب مل بیٹھتے اور بات مذاق ہی مذاق میں خرچے پانی کی طرف نکلتی تو بڑے دھڑلے سے کہتیں، اللہ بخشے پٹواری صاحب کو۔۔ بال بچوں سمیت کسی کا محتاج کر کے نہیں گئے۔ گھر کا کرایہ آتا ہے، پنشن کے پیسے ملتے ہیں۔ زندہ تھے تو بھی ملکہ کہلائی، دنیا سے چلے گئے تو بھی میری ضروریات کے لئے اچھا بندوبست کر گئے۔ بات کافی حد تک سچی تھی۔ ماں جی مہینے کے مہینے بینک جاتیں اور اپنا جیب خرچ لے آتیں۔ خاندان میں کوئی بیاہ شادی آتی، کسی کے ہاں بچہ، بچی کی نوید ہوتی تو ہمیشہ اپنی گتھلی سے اپنے حصے کا نیوندرا ڈالتیں۔ ہم اگر کوئی اعتراض کرتے کہ ایک گھر سے دو دو سلامیاں؟ لوگ کیا کہیں گے؟ ماں جی کا جواب ایک ہی ہوتا، مجھے کسی پر بوجھ نہیں بننا، پٹواری صاحب کا نام زندہ رکھنا ہے۔ ہم چپ ہو رہتے۔

نجانے کون سی گھڑی تھی کہ ایک محفل میں بیٹھے بات سیاست، صحافت، معیشت اور معاشرت سے ہوتی مذہب کے رنگ میں ڈھل گئی۔ حقوق العباد کا ذکر چھڑا تو ایک دانا بزرگ گویا ہوئے کہ ہر وہ دعا اللہ کے ہاں شرف قبولیت حاصل کرتی ہے جس کی ابتدا ماں باپ کی صحت، تندرستی، درازی عمر یا پھر مغفرت کے کلمات سے شروع ہو۔ طریقہ بہت سہل ہے، درود شریف پڑھئے، ماں باپ کے حق میں دعا کیجئے اور اللہ کریم کے دربار میں اپنی حاجت روائی کو یقینی جانئے۔ محفل میں بیٹھے سبھی احباب نے والدین کی خدمت گزاری سے متعلق اپنی اپنی عادت گنوائی۔ ہم خاموش، بت بنے بیٹھے رہے، خود کو بہت ٹٹولا، روزمرہ کی اٹھک بیٹھک پر نظر دوڑائی، مگر والدین کے حق میں کچھ کیا ہوتا تو یاد آتا؟ ہم نے تو انہیں ہمیشہ ایک عام سے رشتے کے طور پر ہی سمجھا اور جانا۔ شرمندگی کے مارے محفل سے اٹھ آئے۔

بات اس وقت کی ہے جب گولڈ لیف کا پیکٹ 30 روپے میں مل جاتا تھا۔ خود کو ملامت کی کہ اور تو اور روز پورا پیکٹ پی جاتے ہیں، کبھی بھولے سے بھی ماں باپ کے حقوق کا خیال نہیں آیا۔ ٹھان لی کہ اور کچھ نہیں تو ایک پیکٹ سگریٹ کے پیسے روزانہ ماں جی کے نام پر خیرات کریں گے۔ مہینے کے 900 بنتے تھے، حاتم طائی کی قبر پر لات ماری اور ماہانہ 1000 روپیہ غربا و مساکین کے لئے مقرر کردیا۔ والد صاحب مرحوم خوب کماتے تھے۔ اس لئے ڈنڈی ماری اور صرف ماں جی کے نام کی قسم کھا لی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، بخیرو خوبی چلتا رہا۔ ماں جی ماشااللہ بھلی چنگی تھیں، دوا دارو کا جنجھٹ نہیں تھا۔ ہم پربھی کوئی ذمہ داری نہیں تھی، اس لئے کسی بھی مہینے خیرات نہ کرنے کی پشیمانی نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ ماں جی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔

صحافت کے پیشے میں بے روزگاری پوچھ کر نہیں آتی۔ برسوں پہلے بھی اور آج بھی کارکن صحافی کی روزی روٹی دیہاڑی کے حساب سے ہی چلتی ہے۔ دیہاڑی لگ گئی تو روٹی پکی ورنہ فاقہ مستی تو ہے ہی۔ واضح رہے کہ ذکر اس دیہاڑی کا ہے جو مشقت سے مشروط ہے۔ دھوکے، فراڈ اور چاپلوسی کا اس سے دور دور کا رشتہ نہیں۔ فراڈ آدمی کی دیہاڑی روپے میں نہیں، سونے کے سکوں میں تولی جاتی ہے۔ ہر کارکن صحافی مشقت کی دیہاڑی کے اس چکر کا عادی ہوتا ہے اور ہم میں سے ہرایک نے کبھی نہ کبھی بیروزگاری کا خوب مزہ چکھ رکھا ہے۔ یعنی:

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

لگ بھگ 30 ایک سال گزر گئے۔ نئی نئی شادی ہو، ایک نئی روح کی آمد آمد ہو، کیا بادشاہ، کیا فقیر، ہر کسی کے خواب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ نئی زندگی کیلئے خود سے بڑھ کر کچھ کر گزرنے کی خواہش جنم لیتی ہے تو امید صبح نو خود بخود جاگ اٹھتی ہے۔ ایک دن بیگم صاحبہ بازار سے مٹی کا گلک لے آئیں کہ آنے والے مہمان کے لئے کچھ جمع کرنا چاہیئے۔ سو چند ہی دنوں میں مٹی کا گلک سکوں کی چھنک دینے لگا۔ اس وقت نوٹ کم ہی ہوتے تھے۔ یہی چونی (25 پیسے)، اٹھنی (50 پیسے)، ایک، 2 اور 5 روپے کے سکے ہوتے تھے۔ ان دنوں بھی کمبخت بیروزگاری نے آن لیا۔ گلک سے سکے نکلنا شروع ہوئے تو چھنکار کہیں دور ڈوبتی چلی گئی۔ ہر چند کہ حالات خراب تھے لیکن ایسے میں بھی ماں جی کے نام کی خیرات کا سلسلہ نہیں رکا۔

ابھی کل ہی کی بات ہے ایک ساتھی نے دل دہلا دینے والی خبر دی۔ دفتر کے ایک کارکن صحافی کی والدہ انتقال کر گئیں۔ اس بدنصیب کو بھی تین، چارماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ اس کے پاس والدہ کی علالت کو سنبھالا دینے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا۔ اسپتال کے بستر پے پڑی نحیف و نزار والدہ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔ نرس وقفے وقفے سے دوائیاں خرید لانے کی پرچی تھما دیتی، خالی جیب کے احساس سے اس کی آنکھوں میں آنسووں کی جھڑی لگ جاتی۔ اس کا ہر آنسو ایک بددعا تھی لیکن اس غریب کی بددعا اسے خود کو لگ گئی۔ اس کی والدہ افق کے اس پار چلی گئیں اور دفتر نے اسے کئی ماہ سے رکی تنخواہ تھما دی۔

1000 روپیہ ماہانہ خیرات کا معاملہ ماں جی کے گزر جانے کے بعد بھی جاری رہا جو اب کچھ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ زندہ بچ رہنے والوں کی ضروریات تو جیسے تیسے پوری ہو ہی جاتی ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ ادھار کے پیسے جمع نہیں رہتے، ایک ہاتھ آتے ہیں دوسرے ہاتھ خرچ ہو جاتے ہیں۔ ہزار، 5 ہزار کے کرنسی نوٹوں کی بھرمار نے سکے ویسے ہی ختم کر دیئے۔ مٹی کے گلک بھی ٹوٹ گئے۔ تین، چار ماہ سے تنخواہ بھی نہیں ملی۔ اب 33 روپے 33 پیسے روزانہ کس طرح جمع ہوں کہ ماں جی کا قرض اتر سکے۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).