ادب، سیکولر ازم اور صبا حسین


ایک قصہ یاد آتا ہے۔ ہمارے ایک ادیب دوست ہوا کرتے تھے، جو اب بحمداللہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لکچرر کی پوسٹ پر فائز ہیں، دو، ڈھائی سال پہلے دوستی ان سے ختم ہوئی، وجہ یہ تھی کہ ایک رات وہ میرے گھر آکر میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ اپنی گرل فرینڈ کی برائیاں کرنے لگے۔ اسے محض ان باتوں کی وجہ سے بدچلن اور آوارہ ثابت کرنے پر تلے رہے کہ وہ یونیورسٹی کیمپس کے دوسرے لڑکوں سے کبھی کبھار ان کی مرضی کے خلاف بات کرلیتی ہے، سکارف نہیں پہنتی اور سب سے خراب بات یہ کہ واٹس ایپ پر جینز ٹی شرٹ پہن کر تصویریں لگاتی پھرتی ہے۔ رات بھر وہ اسے کوسنے دیتے رہے اور میں ان کی فکر کو غلط بتاتا رہا، لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ نہ صرف اس لڑکی نے محبت کا رشتہ بحال رکھا بلکہ شادی بھی کی۔

اس وقت اگر آپ ہندوپاک کے اردو ادیبوں کا جائزہ لیں گے تو ان میں سے زیادہ تر آپ کو اندر سے کڑوے مذہبی اور جانبدار لوگ نظر آئیں گے۔ یہ میں یونہی نہیں کہہ رہا ہوں، یہ میرا دس سالہ تجربہ ہے۔ میں جس جوش و خروش سے ادب ادب کے نعرے لگاتا ان گلیوں میں داخل ہوا تھا، ان ادیبوں کی ذہنیت نے مجھے اتنا ہی ان سے بیزار بلکہ بدظن کردیا ہے۔ ایک صاحب اور ہیں، جو سیکولرازم کا مطلب ہی یہ سمجھتے ہیں کہ عورت خواہ کچھ بھی کہے، اس کی حمایت کی جائے۔ امریکہ میں مقیم کوئی صاحبہ ہیں، جو مشرقی سماجوں میں عورت پر ہونے والے مظالم کا بھی عورتوں کو ہی ذمہ دار سمجھتی ہیں، ان کو ٹسوے بہانی والی، عیار، چالاک، بدکار فاحشائیں ثابت کرنا ان کا وتیرہ ہے۔ میں نے کچھ دنوں ان کے ڈھب دیکھے تو انہیں ان فرینڈ اور بلاک کردیا۔ مگر ان حضرت کو دسیوں جگہ اس عورت دشمن شخصیت کی حمایت کرتے پایا، اس قصے میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ ان صاحبہ کو ان حضرت کی طرف سے جو رعایتی نمبر ملتے رہے تھے، وہ بھی اسی بنیاد پر تھے کہ وہ خود عورت ہیں۔

میں شکر گزار اس بات کا ہوں کہ میری زندگی اس طرح کے نام نہاد ادیبوں کے نرغے سے باہر نکل آئی ہے۔ اور معترف اس بات کا کہ جس ملک کو عام طور پر ہمارے یہاں لوگ دقیانوسی خیال کرتے ہیں، وہیں کے کچھ دوستوں کی بدولت میں نے جانا ہے کہ آزاد خیالی اور دنیا کو اپنے ٹھینگے پر رکھنے کا ہنر کیا چیزیں ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے والی صبا حسین سے میری بات ان دنوں شروع ہوئی، جب میں نے نیا نیا اپنا ناول پستان لکھنا شروع ہی کیا تھا۔ آج قریب ساڑھے تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے، میں نے جستہ جستہ اس کی فکر سے بہت کچھ اخذ کیا ہے۔ اس کی بہادری اور بے پروائی نے مجھے بھی ویسا ہی بنادیا۔ اس کا ادب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، شاید اسی لیے وہ ادب کو جس خلوص کے ساتھ پڑھتی اور سمجھتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ میری سوچنے کی صلاحیت کو بھی جلا بخشتا ہے۔ شاعری اسے پسند نہیں، اور وہ جانتی ہے کہ شاعر لفظوں کے جوڑ گھٹاؤ سے بہت سے لوگوں کو بے وقوف بنا سکتا ہے، شاعری میں فکشن کے مقابلے فکری گیرائی کا تناسب بہت کم اور قریب قریب ناموجود ہے، خاص طور پر اردو شاعری میں۔

صبا حسین کہانی کو پسند کرتی ہے اور اپنے بالغ ذہن کی کسوٹی پر انسانی کی نفسیات اور اس کی اوٹ پٹانگ اور عجیب و غریب حرکات کا جائزہ لیتی ہے۔ صباحسین سے میرا تعلق اس کی چمکتی ہوئی آنکھوں یا جوانی میں ہی سفید ہوتے ہوئے بالوں کے سبب نہیں ہے، مجھے اس کے ذہنی ارتقا پر حیرت ہوتی ہے۔ وہ سماجیات کی طالب علم ہے، اس نے مجھے بہت سی چیزوں کو دیکھنے کے نئے زاویوں سے آشنا کیا ہے۔ وہ زبان میں قواعد کی مشق پر زور دینے کے بجائے، فہم کو سان پر کسے جانے کی حامی ہے۔ تین سالوں کی قریب ایک ہزار ایک راتوں کا دور اس کے ذہن کی پرپیچ گلیوں کے مزے دار سفر کی بھرپور داستان ہے۔ میں نے عام سی زندگی کی بہت سی خاص باتیں صباحسین سے جانی ہیں، عام ہوجانے کے ڈر سے خود پر ایک مصنوعی رعب طاری رکھنے کی عیاری کا پردہ اسی نے چاک کیا ہے۔ میں ادب کے راستے صبا تک پہنچا ہوں، کاغذ سے انسان تک کے اس سفر میں بہت سے مقامات پر لوگ ملتے بچھڑتے رہے ہیں، مگر جو ایک سبق مجھے حاصل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو ادب تخلیق کرنا ہو یا روٹی پکانا ہو، تجربے سے گزرے بغیر، تخیلاتی سطح پر کچھ ممکن نہیں۔

جن لوگوں نے گناہ کے حسن کو سمجھا نہیں، وہ غزلوں میں گناہوں کی کیسی ہی ڈش بنا لیں، بے نمک اور بے مزہ ہی رہے گی۔ صبا حسین نے مجھے اپنے اعتراف نامے کو دیکھ کر آنکھیں چرانے سے بچایا ہے، اس کی مدد سے میں نے سمجھا ہے کہ ہم انسانوں سے زندگی میں بہت سی غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور غلطیاں کرنا ہی ہمارا سب سے بڑا حسن ہے۔ زندگی چار لوگوں کے بنانے اور بگاڑنے کی مرہون منت نہیں ہے، اس پر ہمارا اپنا زور ہے۔ میراخیال ہے کہ یہ ایک دائرہ توڑنے کی جرات کا نتیجہ ہے کہ میری صباحسین سے ملاقات ہوئی، آپ کو بھی اگر اس سے ملنا ہے تو مالائیں جپنا چھوڑیے اور ان سے ہاتھ چھڑائیے، جو آپ کی نظر میں غلط ہیں، چاہے انجام کیسا ہی بھیانک کیوں نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2