جج ارشد ملک کی ملاقاتوں سے خفیہ اداروں کے لاعلم رہنے کی تحقیقات


جج ارشد ملک کا بیان حلفی سامنے آنے کے بعد مختلف اہم اداروں نے اس پر کام شروع کر دیا کہ اس میں کتنی حقیقت ہے اور جن ملاقاتوں کاذکر کیا گیا اس سے دو سول خفیہ ادارے لاعلم کیوں رہے۔ مزید کون کون افراد اس میں ملوث ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق جج ارشد ملک کے ساتھ سعودی عرب میں ملاقات کیلئے حسین نواز سے ایک روز قبل نا صر بٹ پہنچا۔ نواز شریف کے ذاتی سٹاف اور حسین نواز کے وہاں کمپنی مینیجر کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ اس معاملہ میں ناصر بٹ کی ہدایت پر عمل کریں گے۔

مدینہ منورہ کے اوبرائے ہوٹل میں اس حوالے سے دو ملاقاتیں ہوئیں جن میں اسلام آ باد سے تعلق رکھنے والا ایک سنیئر وکیل بھی موجود تھا۔ یہ ملاقاتیں حسین نواز، ناصر بٹ اور وکیل کے درمیان تھیں۔ ملاقاتوں کے بعد ایک مرتبہ ہوٹل اور ایک مرتبہ رہائش گاہ پر جج ارشد ملک کی حسین نواز سے ملاقات کرائی گئی۔

لاہور میں چھ اپریل بروز ہفتہ تقریباَ دو سے ڈھائی بجے کے درمیان سیاہ شیشوں والی گاڑی میں جج ارشد ملک آ ئے۔ ان کے ساتھ ناصر بٹ سمیت دو اور افراد تھے۔ گاڑی کو جاتی عمرہ میں کسی جگہ چیک نہ کیا گیا اور سیدھا اندر جانے دیا گیا۔ ایک پولیس افسر بھی واپسی پر اس گاڑی کے ساتھ اپنی گاڑی لے کر باہر نکلے۔

اس حوالے سے بھی کام شروع ہو گیا کہ ویڈیو کے جتنے کردار ہیں اور جتنے نام سامنے آ ئے، ان سب کے بینک اکاؤنٹس، ملکی و غیر ملکی اثاثے، ان کے ملازمین اور قریبی رشتہ داروں کے اثاثے اور اکاونٹس کو بھی چیک کیا جا رہا ہے تا کہ کسی پوشیدہ ٹرانزیکشن کا پتہ چلایا جاسکے۔

نا صر جنجوعہ، مہر جیلانی، خرم اور ناصر بٹ نہ صرف پارٹنر ہیں بلکہ ن لیگ کے دور حکومت میں انہیں بہت سے مالی فوائد کے ساتھ سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا۔ چاروں کے حوالے سے نوازشریف اور مریم نواز خصوصی ہدایات جاری کرتیں۔ چاروں اکثر پنجاب ہاؤس میں اہم میٹنگز کرتے تھے۔

ناصر جنجوعہ کے ذمے نوازشریف کے کیس، سیاسی کارکنوں کا کھانا اور بڑی میٹنگز کے اخراجات بھی ہوتے تھے۔ انہی چار افراد کے ذریعے بہت سی منی لانڈرنگ بھی پاکستان سے کی گئی اور ان کی کئی بے نامی جائیدادیں بھی ریکارڈ پر آچکی ہیں۔ لندن اور دبئی میں بھی ان کی جائیدادوں کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان میں بہت سی رقم حسین نواز کی ہے لیکن فرنٹ پر ان لوگوں کو رکھا گیا۔

(بشکریہ روز نامہ 92 نیوز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).