احتساب کٹہرے میں ہے


احتساب کا نعرہ ایک عرصہ سے اس ملک میں گونج رہا ہے۔ لیاقت علی خان سے لے کرشاہد خاقان عباسی تک کوئی بھی وزیر اعظم اس نعرہ کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکا۔ سب سے پہلے ایوب خان نے اس سیاسی ہتھیار سے وار کر کے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے ساتھی سیاستدانوں کو نشانہ بنایا۔ جب مارشل لاء کی حکومت حسین شہید سہر وردی جیسے صاف، شفاف اور بہادر شخص کی کوئی اور کرپشن نہ ڈھونڈھ سکی تو ان پر چاول کا پرمٹ جاری کرنے کا مقدمہ چلا یا گیا۔

انہوں نے فوجی عدالت میں اس پرمٹ کو جاری کرنے کا اقرار کرتے ہوے کہا، ”مجھے اس کی سفارش دو اشخاص نے کی تھی۔ ایک اس وقت ملک بدر ہے، اس کا نام ہے، سکندر مرز ا اور دوسرا یہیں ہے، وہ اس وقت کمانڈر انچیف تھا۔ اس کا نام ہے، جنرل محمد ایوب خان۔ “ صدر پاکستاں جو کہ مارشل لاء ایڈ منسٹریٹربھی تھے اس کا نام سن کر عدالت لگانے والے کرنل صاحب نے گھبراہٹ میں سہروردی صاحب سے پوچھا، ”کیا انہوں نے آپ کو حکم دیا تھا۔ “ اس حکم پر سہروردی صاحب طیش میں آ کر گرجے، ”وہ کیسے مجھے حکم دے سکتا ہے۔ میں وزیر دفاع اور وزیر اعظم تھا۔ اس نے عاجزی سے مجھ سے التجا کی تھی۔ “ یہ جواب سن کر عدالت ہو کے عالم میں آگئی۔ ان کے اسی شعلہ بیاں لطف زباں کی مدح میں فیض صاحب نے ان کے کیس کی وکالت کرنے پر کہا تھا

وہ زور ہے اک لفظ ادھر نطق سے نکلا

واں سینہ اغیار میں پیوست ہوے تیر

اس وقت سے لے کر آج تک صرف اور صرف سیاستدانوں کو ہی مختلف بہانوں سے احتساب کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہر دفعہ وہی زیر عتاب ٹھہرے ہیں۔ عدلیہ اور دوسرے تمام ادارے جن کی مدد کے بغیر کوئی حکومت چل ہی نہیں سکتی اور جو ہر قسم کے کام میں سیاستدانوں کے ساتھ ہمیشہ پا در رکاب رہے ہیں وہ ہمیشہ کسی حکومت کے جاتے ہی آنے والوں کے ہم رکاب ہو جاتے ہیں اور ان کے ہم زبان ہو کر اپنے پرانے آقاؤں کو ہرزہ سرائی شروع کر دیتے ہیں۔

سیاستدانوں پر اخلاقی سے لے کر مالی تک ہر قسم کی کرپشن کا الزام لگا ہے۔ فاطمہ جناح جب الیکشن میں ایوب خان کے خلاف مہم چلا رہی تھیں تو ان کی عمر 69 سال تھی ان پرغداری کے ساتھ اخلاقی الزامات بھی لگاے گئے۔ علمائے دین اور مفسر قران سیاست دان بھی ان الزامات سے اپنا دامن نہ بچا سکے۔ وہ سیاست دان جو حکومتی عہدوں پر کبھی بھی نہ آسکے ان پر غیر ملکی اعانت کا الزام لگا کر بدنام کیا گیا۔ دائیں اور بائیں بازو کے منتخب و غیر منتخب سب سیاستدانوں کو بلا تخصیص غداری کے اس الزام کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

ایوب خان نے سیاستدانوں کی پہلی نسل کو اپنے دس سالہ دور میں احتساب کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ستر کی دہائی میں دوسری کھیپ تیار ہوئی تو ظلمت و انتہا پسندی کی حکومت نے ان کو پا بند سلاسل کر دیا۔ اسی اور نوے کی دہائی میں تیسری نسل اپنے بزرگوں کی جگہ پر ذلیل ورسوا ہونے کے لئے تیار تھی لیکن اب بھٹو کے دیے گئے شعور کی وجہ سے عوام ان کے ساتھ مار کھانے کو موجود تھے۔ اب ان کو ختم کرنا ناممکن ہو چکا تھا اس لئے مار کے ساتھ ساتھ ان کی خریداری بھی شروع ہوئی۔

اس دوران کچھ لوگ مضبوط ہوتے گئے۔ اور ان کو حکومت دینا مجبوری بن گیا۔ لیکن پاکستان میں جب بھی سیاستدانوں کو حکومت ملی تو وہ کافی حد تک مشروط ہوتی تھی۔ اکثر ادارے ان کی بات ہی نہیں مانتے تھے۔ سیاست دانوں کے پاس کوئی ذاتی فوج یا طاقت نہیں ہوتی۔ صرف اور صرف عوام ہی ان کی طاقت کا منبع ہیں۔ جب وہ اپوزیشن میں ہوں تو پھر بھی عوام ہی ان کے لئے طاقت کا سر چشمہ ہوتے ہیں۔ اور ان کے وکیل صرف ان کی زبان اور کچھ حد تک میڈیا ہوتے ہیں۔ اسی طاقت اور وکالت کو کمزور کرنے کے لئے ان پر ستر سال سے چہاراطراف سے یلغار کی جا رہی ہے۔

پاکستاں میں یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے لیکن ہر دس سال کے بعد اس میں شدت آجاتی ہے۔ صرف اور صرف سیاستدان ہی اس کا نشانہ بنتے ہیں، باقی سب مقدس گاے بن کر آستان پر برا جمان رہتے ہیں۔ حکومت پر براجماں غیر سیاسی مطلق العنان طاقتوں کی طرف کوئی رخ ہی نہیں کر سکتا۔ ان آمروں کا احتساب کرنے کی کسی میں طاقت ہی نہیں۔ آج تک ان تمام کو عدلیہ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ نصرت بھٹو کیس میں جب عدلیہ نے نظریہ ضرورت کا احیا کرتے ہوے ضیاء الحق کی حکومت کو جائز قرار دیا اور اس ’جائز‘ حکومت پر مدت کی کوئی قدغن نہ لگانے پر ذولفقار علی بھٹو نے جو گلا سپریم کورٹ بنچ کے روبروکیا اسی سے ملتا جلتا کام ظفر علی شاہ کیس میں دوبارہ پی سی او ججوں نے کر دیا۔

اور پرویزمشرف کو بن مانگے حکومت کرنے کا لا محدود اختیار دے دیا۔ عدلیہ نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ اب کی بار ہمارے فیصلے مولوی تمیزالدین کی روح کو شرمندہ نہیں ہونے دیں گے اور ہمیشہ ہی وہ پھر طاقتور کے در پر سلام کرنے چلے جاتے ہیں۔ آمریت کے ادوار میں کیسے لوگ خریدے جاتے ہیں، حکومتی خزانے لٹاے جاتے ہیں اور کرپشن کے بازار کیسے گرم رکھے جاتے ہیں کوئی یہ بات کرنے کی جراء ت بھی نہیں کرسکتا۔ اب بھی حکمران پچھلے دس سالہ ادوار کی بات کرتے ہیں اس سے پچھلی دہائی میں جانے سے ان کے پر جلتے ہیں۔

اس ساری نا انصافی کو جسٹس منیر کے دور سے لے کر آج تک کی عدلیہ کی سر پرستی حاصل رہی ہے۔ آمریت کے پہلے دو ادوار میں سیاستدانوں کو نشانہ عبرت بنانے کے لئے تو فوجی عدالتوں کا بھی سہارا لیا گیا لیکن اب تو اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور 99 کے بعد سے ہر کسی کو اعلیٰ عدالتوں میں ہی القابات سے نوازا گیا۔

اس دوران کیا کیا ہوتا رہا، سب آہستہ آہستہ عوام کے سامنے آشکار ہوتا چلا گیا ہے۔ میڈیا کی آزادی، سوشل میڈیا کی ایجاد اور عوامی شعور میں زبردست اضافہ کے بعد اب کسی کا متبرک اور پاکباز بن کر دوسروں پر گند اچھالنا ممکن نہیں رہا۔ سوشل میڈیا نے سب کو ننگا کردیا ہے۔ عوام کو اپنی آزادی کی حفاظت کرنا آ گیا ہے۔ ان میں ناانصافی کو روکنے کی طاقت تو نہیں ہے لیکن اب ان کو احتجاج کرنے اور اس ظلم پر شور کرنے سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔ اب سب کے ہاتھ میں سماجی رابطے کا ہتھیار موجود ہے جو وہ مسلسل استعمال کر رہے ہیں۔

اب جو بھی فیصلہ آتا ہے وہ فوراً عوام کی ملکیت بن جاتا ہے اور اسی شام اس پر ہر قسم کے تبصرے شروع ہو جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کی جڑیں اب عوام میں بہت مضبوط ہو چکی ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کو نکالنے والوں کو بھی ان کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور پھر ایک اور این آر او تیار کیا جاتا ہے، جس کے بعد ان کی ہی حکومت پھر آجاتی ہے۔ اب ان کے خلاف فیصلہ دینے والے، فیصلہ اگر تو انصاف کی بنیاد پر کریں تو ان کو کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اگر دل میں چور ہو تو چور چور کا شور ان کے کانوں میں بھی گونجتا رہتا ہے۔

اب جج حضرا ت اپنے فیصلوں کا بار اٹھانے سے گھبرا رہے ہیں اب عوام کا سامنا کرنا اورجن لوگوں کو جائز یا ناجائز سزا سنا دی ہے ان کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ شاید اب سیاستدان بہت مضبوط ہوگئے ہیں یا واقع ہی ضمیر زندہ ہو گئے ہیں۔ فیصلہ دینے کے بعد یا پہلے ملزم سے ملاقاتیں اسی کشمکش کی کہانی سنا رہی ہیں۔ اب حضرات کا دل کانپ رہا ہے، خوف خدا یا خوف بندہ خدا سے۔

پچھلے کئی سالوں سے مقبول ٹی وی سیریز ”گیم آف تھرونز“ کے سب سے زیادہ باعزت خاندان ہاؤس سٹارک کے لارڈ نے ایک بھگوڑے کو سزا سنا کر خود سر قلم کرنے کے بعد کہا تھا، ”وہ آدمی جو سزا سناتا ہے، اسے ہی تلوار چلانی چاہیے۔ اگر تم ایک آدمی کی جان لے رہے ہو تو یہ اس کا تم پر قرض ہے کہ تم اس کی آنکھوں میں دیکھو اور اس کے آخری الفاظ بھی سنو۔ اور اگر تم میں یہ کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو شاید وہ آدمی موت کا حقدار نہیں ہے۔ “

اب یہ وقت کا جبر ہے جو احتساب کے دھارے میں عدلیہ کو بھی لے آیا ہے اوراس کے ساتھ اداروں کی ساکھ بھی زیر عتاب آنا شروع ہو گئی ہے۔ اب نہ تو یہ حمود الرحمان کمشن ہے اور نہ ہی ایبٹ آباد کمشن رپورٹ جن کو دبا کر گزارا ہو جاے گا۔ اب پاکستاں کے مقبول لیڈر اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی عزت زیر احتساب ہے، اب فیصلہ بر وقت اور انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔ گیم آف تھرونز میں ہی ایک اور جگہ پر سزا دیتے ہوے ہاؤس سٹارک کی ملکہ کہتی ہے، ”اس دنیا میں انصاف کہیں نہیں ہے، جب تک ہم خود انصاف نہیں کرتے۔

” سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ جج کا وڈیو سکینڈل عدالتوں کے ساتھ پوری قوم کے گلے میں پڑ گیا ہے۔ اب کی بار غیر ضروری نرمی یا نا انصافی دونوں ہی خطرناک ہو سکتی ہیں اور ملک کو ایک اور دوزخ میں پھینک سکتی ہیں۔ اب یہ پل صراط صرف آنکھوں پر پٹی باندھ کر انصاف کا ترازو ہاتھ میں پکڑ کر ہی پار کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).