ایک بے روزگار سڑک چھاپ صحافی کی کہانی


میں ایک صحافی تھا، شاید اب بھی ہوں اور ہمیشہ رہوں گا لیکن اب میرے پاس کوئی روزگار نہیں۔ میں نے صحافت کے لئے اپنی اچھی خاصی جاب قربان کی تھی، اگر میں اب بھی وہ جاب کررہا ہوتا تو شاید لاکھوں میں کمارہا ہوتا لیکن مجھ پر کسی نے جادو ٹونا کرکے مجھے بے راہ روی کا شکار کردیا۔ یہ کہانی شروع ہوئی آج سے تقریباً 10 سال پہلے جب میں متحدہ عرب امارات میں خاصی خوش و خرم زندگی گزاررہا تھا۔ پیسے کمارہا تھا، گاڑی تھی، گھر تھا، اچھی جاب تھی اور سب سے بڑی بات میرے پاس اماراتی ڈرائیونگ لائسنس بھی تھا جسے حاصل کرنا وہاں پر مزدوری کرنے والے ہر شخص کا خواب ہوتا ہے۔

لیکن مجھ میں صحافتی کیڑا یا دوسرے لفظوں میں اپنے ملک کے ساتھ محبت والا کیڑا بیدار ہوگیا۔ سب کچھ چھوڑ کر ویزا کینسل کرکے دوبارہ تعلیم شروع کی۔ ماسٹرز میں گولڈمیڈل لیا اور میڈیا کی طرف پہلا قدم رکھا۔ پہلی جاب مجھے آفر ہوئی، یعنی میں نے نہیں بلکہ ایک صحافتی ادارے نے مجھے نوکری دی۔ وہ دن میری زندگی کا یادگار دن تھا جب میں نے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر اپنی زندگی کی پہلی سٹوری لکھی اور ٹی وی پر چل گئی۔ وہ وقت تھا جب میں نے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اورملکی مفادات کو مقدم رکھنے کا عزم کیا۔

دو سال بعد وہ نوکری چھوڑ کر میں نے دوسرے ادارے میں انٹرویو دیا اور وہاں بھی قسمت نے ساتھ دیا، مجھے ایک اور اچھی جاب مل گئی۔ نیشنل میڈیا سے انٹرنیشنل میڈیا میں جانے کا تجربہ انتہائی مسحورکن اور باعث فخر تھا کیونکہ میں اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سیکھنے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوا جو نہ صرف میرے پروفیشن کے لحاظ سے ایک فائدہ مند تجربہ تھا بلکہ بڑے پلیٹ فارم پر عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کا ایک سنہرا موقع مل گیا۔

مگر حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے، وہ نوکری تقریباً ڈھائی سال بعد ختم ہونے لگی۔ اس دوران کئی صعوبتیں بھی برداشت کیں جنہیں شاید بیان کرنا اس پلیٹ فارم پر ممکن نہیں وہ کبھی کتابی صورت میں سامنے آئے گا۔ دھمکیاں، سختیاں اور کئی لوگوں کی جانب سے باتیں سننا، سب کچھ اس پروفیشن کا حصہ ہے اور ہم سہتے چلے آرہے ہیں مگر کچھ ’خاص لوگوں‘ کی پریشانی جب بڑھ جاتی ہے تو پھر ان کو منانا اور سمجھانا مشکل ہی نہیں شاید ناممکن سی بات رہ جاتی ہے۔

اور ہمارے ساتھ وہی ہوا، ایک بار پھر ہمیں بے روزگار کیا گیا لیکن روزگار کی تلاش میں انٹرنیشنل میڈیا سے ایک بار پھر نیشنل میڈیا میں جانے کا ارادہ کیا۔ ایک نیشنل ٹی وی میں ڈیسک انچارج کی جاب مل گئی، دو مہینے کام کیا اور وہ بھی ایسا کہ صرف تین بندوں کی شفٹ، کام پورا، رپورٹرز کی کمی لیکن بلیٹن ہر گھنٹے بعد۔ کبھی سٹوری بنانی ہے تو کبھی ہیڈلائنز، سی جیز کی طرف جانا ہے تو بلیٹن کو بھی دیکھنا ہے کہ فوٹیج کون سی چل رہی ہے۔

رپورٹس کو بھی دیکھنا ہے کہ کون سی رپورٹ چلنی ہے اور کون سی نہیں۔ رن ڈاؤن کو بھی مانیٹر کرنا ہے۔ غرض یہ کہ ایک بندہ بیک وقت سب ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، او ایس آر انچارج اور پروڈیوسر کی ذمہ داری نبھاتا رہا۔ دو مہینے کام کیا لیکن ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملی تو مجبوراً وہاں سے بھی راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔ چونکہ ہماری رہائش شہر اقتدار میں تھی اس لئے وہاں کے خرچے ہماری بس سے باہر ہونے لگے تھے۔ کچھ قرض لے کرزندگی کے کچھ اچھے گزرے لیکن آخر کب تک؟

جاب کے لئے ہر ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز اور انچارج تک اپنی سی وی پہنچائی، سفارش بھی کروائی لیکن چونکہ سفارش اتنی بڑی نہیں تھی اس لئے ہم پیچھے ہی رہ گئے۔ صحافتی جذبہ تھا، اور ہے لیکن اب وہ جذبہ ماند پڑچکا ہے کیونکہ جس جذبے کے ساتھ اس میدان میں اترے تھے اسی جذبے سے ہمیں ٹھکرایا گیا۔ سیاستدانوں یا ان لوگوں کے ساتھ جو نوکریاں دلواسکتے ہیں، کے ساتھ ہماری کبھی بنی ہی نہیں، یا ہم میں وہ مادہ نہیں کہ سیاستدانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرسکیں۔ ہم تو صحافت کرنے آئے تھے اور صحافتی میدان میں صحافت ہی کے ذریعے نام کمانا چاہتے تھے۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ یہاں صحافت سے زیادہ کچھ اور ہی کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کسی کی مدح سرائی کرنی ہے تو کسی کو خوب رگڑنا ہے کیونکہ ’کسی‘ کو خوش بھی کرنا ہے۔

نیوزروم میں کئی بار جھگڑے بھی ہوئے، شاید انہی جھگڑوں کی وجہ سے اب ہم کسی بھی ٹی وی چینل کے نیوزروم میں جگہ نہیں بناسکتے۔ کبھی پروفیشنل ذمہ داریوں پہ جھگڑا تو کبھی خبر سے متعلق حقائق ڈھونڈنے پر، کبھی اہم خبر کو ڈراپ کرنے تو کبھی ایک عام رپورٹ کو خاص بناکر پیش کرنے پر۔ غرض اب ہم اپنے آپ کو صحافتی میدان میں ان فٹ تصورکررہے ہیں۔

یہ کہانی ایک صحافی کی کہانی نہیں۔ مجھ میں یہ سب کچھ لکھنے کی اب ہمت ہی نہیں تھی کیونکہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے جس مشکل کا سامنا میں کررہا ہوں، اب بہت سے صحافی حضرات کررہے ہیں۔ کسی نے صحافت چھوڑ کر یوٹیوب کا سہارا لیا تو کوئی کاروبار کی جانب چل پڑا۔ کسی نے مصالحت کرکے روزی روٹی کمانے کا فیصلہ کیا تو کسی نے اپنی انا کی خاطر ہماری ہی طرح اپنے بچوں کی فاقہ کشی کا فیصلہ کیا۔ اور تو اور کئی صحافی حضرات صحافت چھوڑ کر ایک خاص پارٹی کی جانب چل پڑے تاکہ مشکلات کچھ آسان ہو۔

اب ہم کیا کریں؟ قرضوں کے بوجھ تلے گزاری جانیوالی زندگی میں اگر کوئی امیدباقی تھی اب وہ بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ بڑ ے سے بڑے صحافی نے مصالحانہ کردار اپنا کر اپنے ضمیر کو ماردیا ہے، اب وہ صحافت نہیں کسی کو خوش کرنے کے عمل سے گزررہے ہیں۔ ایسے میں ہم جیسے نامعلوم چھوٹے صحافی کیا کہہ سکتے ہیں۔ بس یہی امید ہی کرسکتے ہیں کہ شاید اچھا وقت آئے گا جب یہاں ایک بار پھر صحافت حقیقی معنوں میں دیکھی جانے لگے گی۔
نوٹ: یہ بس صرف ایک کہانی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).