بلوچ قائداعظمؒ کو سونے چاندی میں تولتے تھے


”جب پاکستان قائم ہوچکا تو قائداعظمؒ نے مجھے کراچی بلایا، میں 22 دنوں تک ان کا مہمان رہا۔ اس قیام کے دوران میں قائداعظمؒ نے فرمایا کہ میں اس ملک کا چلانے والا نہیں ہوں۔ وہ کہتے تھے دیکھو خان! میرے عزیز نوجوان! میں اب بوڑھا ہوچکا ہوں، تم آؤ اور میری مدد کرو، اس ملک کو چلانے کے لیے قابل آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اس کے جواب میں خان آف قلات نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر میری کچھ شرائط ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ الیکشن کرا دیں، انتخابات آپ کی زندگی میں ہوسکتے ہیں بعد میں مشکلات ہوں گی۔

پاکستان کا آئین بنوا دیں اور پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دے دیں۔ یہ سن کر قائداعظمؒ نے فرمایا کہ میں یہ کیسے کرسکتا ہوں؟ اس پر خان آف قلات احمد یار خاں بولے کہ جس طرح میں نے اپنی ریاست قلات میں کیا ہے، میری ریاست میں اسلام ہے، میں دس سال سے اسے چلا رہا ہوں، آپ بھی اسی طرح کریں۔ یہ سن کر قائداعظمؒ بولے کہ وہ آپ کی ریاست ہے۔ یہ پاکستان میری ریاست نہیں ہے، پاکستان میں مختلف الخیال لوگ ہیں، ان کی اپنی ایک آئین ساز اسمبلی ہے۔

اسمبلی کو آئین سازی کا پورا اختیار ہے، مجھے اختیار نہیں ہے۔ البتہ اسمبلی جو قانون چاہے بنائے یہ اس کا دائرہ اختیار ہے۔ میں کوئی بادشاہ ہوں، نہ کوئی فوجی آمر کہ میں لوگوں پر حکم چلاتا پھروں ”۔ خان آف قلات احمد یار خاں اور قائداعظمؒ کی اس گفتگو کا ذکر ممتاز محقق پروفیسر سید ذوالقرنین زیدی نے اپنی کتاب“ قائداعظم کے رفقاء سے ملاقاتیں ”میں کیا ہے۔ وہ خان آف قلات کی مزید باتیں لکھتے ہیں کہ“ قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ ریاست قلات کے سرکاری وکیل تھے۔

وہ بلوچستان آکر بہت خوش ہوتے اور مطمئن ہوتے۔ ایک دفعہ قائداعظمؒ چھ ہفتوں کے لیے خان آف قلات کے مہمان بنے تو قائداعظمؒ کی آمد پر اُن کا وزن کیا گیا اور رخصت کے وقت دوبارہ وزن کیا گیا تو وزن میں اضافہ ہوچکا تھا۔ خان آف قلات کہتے ہیں کہ قائداعظمؒ میرے ساتھ چھ چھ گھنٹے باتیں کرتے رہتے۔ جب کبھی لیاقت علی خان اور عبدالرب نشتر پوچھتے کہ آپ اور خاں صاحب جو باتیں کرتے ہیں اُس بارے میں نہ خاں صاحب کچھ بتاتے ہیں نہ آپ کچھ کہتے ہیں تو قائداعظمؒ مسکراتے اور فرماتے کہ یہ باتیں آپ ہم پر چھوڑ دیجیے۔

ان دنوں بلوچستان کی مسلم لیگ کو قاضی عیسیٰ چلا رہے تھے۔ خان آف قلات نے کہا کہ مجھے سردار عبدالرب نشتر نے پشتو میں بتایا کہ بابا اور لیاقت علی کے درمیان کچھ اختلافات ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں کون حق بجانب ہے؟ اس پر سردار صاحب نے کہا۔ اللہ اکبر! اللہ اکبر! یہ تو گستاخی ہوگی کہ ہم قائداعظمؒ کے سامنے کسی اور آدمی کو لائیں۔ وہ صحیح کہیں یا غلط بس سرتسلیم خم ہے۔ خان آف قلات کے مطابق تعلقات کی اس خرابی میں سکندرمرزا، چوہدری محمد علی اور کرنل شاہ وغیرہ کا کافی ہاتھ تھا۔

ان لوگوں نے قائداعظمؒ اور لیاقت علی خان کے مابین اختلافات کی کوشش کی۔ خان آف قلات نے سوچتے ہوئے بتایا کہ قائداعظمؒ کی وفات کے بعد اندر ہی اندر افراتفری شروع ہوچکی تھی۔ ایک انتشار تھا جو جنم لے چکا تھا۔ ان کی اتنی بڑی شخصیت تھی کہ ان کے سامنے کوئی کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ وہ مدلل بات کرتے تھے۔ قائداعظمؒ کے بعد حالات بگڑنے لگے۔ ایک طرف سِول بیوروکریسی کے لوگ تھے اور دوسری طرف سیاست دان۔ سِول بیوروکریسی کے لوگ اپنے اقتدار کو آگے بڑھانے کی فکر میں تھے۔

ان لوگوں میں غلام محمد، مشتاق گورمانی، قربان علی خان، چوہدری محمد علی، سکندر مرزا اور ایوب خان وغیرہ کا ٹولہ شامل تھا۔ خان آف قلات نے مسرور کن لہجے میں ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ مسلم لیگ تحریک کو تقویت پہنچانے کے لیے ایک مرتبہ قائداعظمؒ نے اپیل کی کہ مجھے پستول اور بندوق کی گولیاں نہیں چاہئیں، مجھے چاندی کی گولیاں چاہئیں۔ اس کے جواب میں، میں نے قائداعظمؒ سے اُن کے وزن کے حوالے سے دریافت کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا وزن 140 پونڈ تھا۔

میں نے اُن کے وزن سے زیادہ 180 پونڈ سونا اُس وقت تحریک کو دیا۔ یہ واقعہ میرے گھر کا ہے اس لیے میں اس کی تشہیر نہیں چاہتا تھا۔ خان آف قلات نے ماضی کو گھورتے ہوئے بتایا کہ قائداعظمؒ کہتے تھے کہ روس ہم سے بہت قریب ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اگر روس ہمارے ساتھ ہوگا تو پھر ایران، افغانستان اور ہندوستان وغیرہ سے ہمیں مخالفت کا خطرہ کم ہوگا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھیں۔ روس بھی ہے، امریکہ بھی ہے، انگریز بھی ہیں، یورپینز بھی ہیں۔

ہمیں سب سے پاکستان کے مفاد کے تعلقات رکھنے ہیں ”۔ تاریخ کی ان کتابوں کو پڑھتے پڑھتے عام پاکستانی افسردہ ہو جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ کیا وہ یہی پاکستان تھا جس کے بابائے قوم قائداعظمؒ محمد علی جناح تھے، جن پر بلوچ دل و جان نثار کرتے تھے؟ بلوچ خوب جانتے تھے کہ قائداعظمؒ ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ تھے جس کا نام پاکستان ہے اور بلوچ فراخ دلی سے نظریۂ پاکستان کو سونے چاندی میں تولتے تھے۔ پھر چند برسوں میں ہی کیا ہوگیا؟

یہاں تک کہ قائداعظمؒ کے شیدائی اُسی خان آف قلات احمد یار خاں کو 1958 ء میں حکومت پاکستان نے گرفتار کیا۔ پہلے بلوچ مسلم لیگ کو دل کھول کر چندہ دیتے اور اس کی مشہوری بھی نہ چاہتے، اب بلوچستان کو اربوں روپے کے فنڈز دیے جاتے ہیں مگر پھر بھی معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ آخر اس ملک کی خوبصورت چڑھتی جوانی کو کس نے ناپاک کردیا؟ نوخیز کلی کو کس کے پلید ہاتھ لگ گئے؟ اس کے ذمے دار پاکستان کے ابتدائی دنوں کا اقتدار کی رسہ کشی والا کیا وہ مخصوص ٹولہ تھا یا ہماری خارجہ پالیسی کے دور اندیشی والی فہم و فراست سے خالی فیصلے اور انٹرنیشنل سطح پر ہماری غیرمتوازن طرف داریاں تھیں جن کا بوجھ اٹھائے ہم دیوانہ وار دوڑتے چلے گئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).