آمرانہ قوتوں کی پسپائی کے لیے جمہوری قوتیں کھڑی ہوں


پاکستان کی موجودہ گھمبیر بحرانی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے نامور سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں، وکیلوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے تمام جمہوری قوتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آمرانہ قوتوں اور ریاستی اداروں کی غیرآئینی دست درازیوں کو ردّ کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت اور انسانی حقوق و آزادیوں کے لیے متحد ہو کر مزاحمت کریں۔ اس کا اعلان عوام کے حقوق کے لیے جمہوری و آئینی جدوجہد کے اعلان نامہ میں کیا گیا ہے۔

جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کے اعلامیہ میں ملک کو درپیش ہمہ گیر بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:

اوّل: ایک دست نگر معیشت ایک بھاری بھر کم قومی سلامتی کی ریاست کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور اربوں ڈالرز کے نئے قرضوں سے افاقہ ہونے والا نہیں جب تک کہ ایک مقروض و دست نگر معیشت کو ایک پیداواری معیشت میں نہ بدلا جائے اور ترقی کے ماڈل کا رُخ عوام کی معاشی نجات کی طرف نہ ہو۔

دوم: سابقہ دو جمہوری حکومتوں کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک دھائی سے جاری ’جمہوری عبور‘ کی جگہ ایک فسطائی رجحان کی حامل حکومت کے پسِ پردہ غیرآئینی و غیرمنتخب آمرانہ قوتوں کی بالادستی قائم کر دی گئی ہے۔

سوم: آئینی حکمرانی، پارلیمانی نظام، انصاف کا عمل، حقِ اظہار، میڈیا کی آزادی، اداروں کی غیرجانبداری اور آئینی فرمان برداری کو تحلیل کیا جا رہا ہے۔ سلامتی کے اداروں پر دفاع کے سوا دوسرے سویلین معاملات میں عدم مداخلت کی جو آئینی بندش ہے وہ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر عوام کے شہری، انسانی، معاشی اور سماجی حقوق کو کچلا جا رہا ہے۔

چہارم: تمام طرح کے میڈیا کو آمرانہ بندشوں میں جکڑ کر کھلی سنسرشپ مسلط کر دی گئی ہے، جس کی ذمہ داری سلامتی کے اداروں اور حکومت پر عاید ہوتی ہے۔ ہزاروں صحافی بیروزگار اور سینکڑوں پر بندشیں لگا دی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک عجیب الخلقت جنگ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ عوام کے حقوق کی تحریکوں اور گمشدہ شہریوں کی باریابی کی تحریکوں، خاص طور پر بلوچ اور پشتون علاقوں میں، کو کچلا جا رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کو ایک یک طرفہ اور منتقمانہ احتساب کی صورت میں بدترین انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عوامی نمائندوں کو اسمبلیوں میں اپنے حلقوں کی نمائندگی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اگر اے این پی کے رہنمائوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو حقوق کی پُرامن جدوجہد کرنے والوں جیسے پی ٹی ایم اور دوسری کئ تنظیموں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں جاری تصادم ختم ہوتا نظر نہیں آرہا اور بیگانگی کا شکار ہوئے بلوچ بھائیوں کو مذاکرات کے زریعے قومی دھارے میں لانے کا جو عزم نیشنل ایکشن پروگرام میں کیا گیا تھا وہ ہنوز تشنہ تکمیل ہے جس سی ایک طرف بلوچ بھائی تختہ ستم بن رہے ہیں اور دوسری جانب بیرونی عناصر کو مداخلت کا موقع مل رہا ہے۔ فاٹا کے عوام نے طویل دھشت گردی اور رد دھشت کے دوران بہت جانیں گنوائیں ہیں، مصیبتیں جھیلی ہیں اور اُن کے گھر بار تباہ ہوئے ہیں۔ اُن کی شکایات جائز ہیں اور ان سے مل کر اُن کا حل نکالا جائے۔

پنجم: اٹھارہویں ترمیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقیت اور صوبائی خودمختاری کو تحلیل کیا جا رہا ہے اور صوبوں کو یا تو ریموٹ کنٹرول سے چلایا جا رہا ہے جیسے پنجاب اور پختون خوا یا پھر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جیسے سابقہ فاٹا، بلوچستان اور سندھ۔

ششم: مہم جویانہ اور تنہا رہ جانے والی خارجہ و سلامتی کی پالیسیوں کے باعث عالمی برادری میں پاکستان تنہا ہو کر رہ گیا ہے جس کی ایک مثال فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا پاکستان کو مسلسل گرے لسٹ میں شامل کیے رکھنا ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر اتفاقِ رائے اور فوجی آپریشنز کے باوجود دہشت گردی اور انتہاپسندی کا عفریت ختم ہونے کو نہیں جس کی وجہ ان عفریتوں کے اسباب کو ختم کرنے سے اجتناب دکھائی دینا ہے۔

اِن بدترین حالات کے پیشِ نظر جمہوری اعلامیہ میں عوام الناس اور جمہوری و ترقی پسند قوتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ درج ذیل امور پر سختی سے ڈٹ جائیں۔

1۔ عوام کے اقتدارِ اعلیٰ، شہری، انسانی و معاشی حقوق، بشمول حقِ اظہار جو عالمی اعلان ناموں اور آئینِ پاکستان میں یقینی بنائے گئے ہیں اور عوام کو اپنے نمائندوں کو ایک آزاد الیکشن کمیشن کے تحت آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے چننے کے حق کی بازیابی تاکہ جعلی و چرائے گئے انتخابی عمل سے خلاصی ہو۔

2۔ ایک آئینی، جمہوری، وفاقی اور عوامی حکمرانی کا کوئی متبادل نہیں۔ اس کے لیے ایک اقتدارِ اعلیٰ کی حامل منتخب پارلیمنٹ، خودمختار صوبائی اسمبلیاں، بااختیار مقامی حکومتیں ہونا ضروری ہیں۔ ریاست کے تمام اداروں کو عوام کے اقتدارِ اعلیٰ (یعنی پارلیمنٹ) اور ایک ایسی ذمہ دار حکیومت جو پاکستان کے غریب عوام کی خادم ہو، کے تابع کرنا ہوگا۔

3۔ طاقت کی تکون اور ریاست کے تین بازوئوں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم کو ایسے قائم رکھنا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی یقینی رہے جس کی کوئی ادارہ پامالی نہ کرے۔ اداروں کی جانب سے ہر طرح کی غیرآئینی مداخلت کا سدِباب۔ جیسے سلامتی اداروں کی دفاع کے علاوہ دراندازیاں اور عدلیہ کی انتظامی امور میں حد سے بڑھی ہوئی مداخلت کا سدِباب۔ سلامتی کے ادارے قابلِ احترام ہیں اور انہیں اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے دوسرے اداروں کے امور میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے۔

4۔ ریاست کے تمام اداروں کو آئین میں دیئے گئے تمام انسانی، شہری، سماجی و معاشی حقوق کا نہ صرف احترام بلکہ انہیں تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنانا چاہیے اور کسی سے اُس کے مذہب، فقہ، جنس اور قومیت کی بنا پر تفریق نہ کی جائے کہ سب شہری برابر ہیں۔ آزادیٔ اظہار اور میڈیا پر بندشوں و سینسرشپ کا خاتمہ، گمشدہ شہریوں کی باریابی، عورتوں کے ساتھ کیئے جانے والے جنسی و غیرانسانی امتیاز اور اقلیتوں کے ساتھ تمام تر ناانصافیوں کا خاتمہ۔ پُرامن شہریوں اور اُن کی پُرامن تحریکوں کے خلاف ریاستی و غیرریاستی عناصر کے تشدد کا سدِباب۔ بلوچستان میں جاری سورش کے خاتمے کیلئے بلوچ قوم پرستوں سے بات چیت کے ذریعہ مسئلے کا حل نکالا جائے جیسا کہ نیشنل ایکشن پلان کی منشا تھی تاکہ بلوچ بھائیوں کی مشکلات ختم ہوں اور ناداض عناصر قومی دھارے میں واپس آئیں اور بیرونی ریشہ دوانیاں ناکام ہوجائیں۔ فاٹا کے نوجوانوں کو گلے لگایا جئے ناکہ پرے دھکیلا جائے۔ اُن کی پُر امن تحریک کے جائز مطالبات پورے کیئے جائیں اور قبائلی علاقوں کی خیبر پختون خواہ میں جمہوری جذب پزیری کو جلد منطقی نتیجے پہ پہنچایا جائے۔

5۔ کرپشن کی تمام صورتوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ سب کے بلااستثنیٰ احتساب کو شفاف، منصفانہ بنایا جائے اور سب کے بلاامتیاز احتساب کے لیے ایک ہی خودمختار ادارہ ہو جو کسی بھی انتقامی اور جعلی کارروائیوں سے اجتناب کرے۔

6۔ پاکستان ایک پائیدار پیداواری بنیاد پر بیرونی دست نگری، محتاجی اور قرضوں کے جال سے نجات پا سکتا ہے۔ جو سارے عوام کی سلامتی، روزگار، صحت و تعلیم اور اچھی زندگی کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے معاشی، سلامتی و علاقائی تجارت و تعاون کا فروغ ضروری ہے۔

7۔ پاکستان کو قومی سلامتی کے جنگجویانہ نظریہ کی جگہ عوامی سلامتی و ترقی کے نظریہ کو اپنانا ہوگا اور ایک ایسے قومی بیانیے کو فروغ دینا ہوگا جو انسان دوستی، بھائی چارے، عوامی فلاح، عدل و انصاف، برداشت اور اندرون و بیرونِ ملک امن کا داعی ہو، جو اچھی ہمسائیگی، دوطرفہ تعاون اور اختلافات کے پُرامن حل پہ اصرار کرے۔

دستخط کنندگان کے نام

اس اعلامیہ پر پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر، سینیٹر رضا ربانی، مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال اور سینیٹر پرویز رشید، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک، سینیٹر حاصل بزنجو اور آرگنائز پنجاب ایوب ملک، عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری افتخار حسین، عوامی ورکز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان، افراسیاب خٹک، بی این پی کے لشکر رئیسانی، مزدور کسان پارٹی کے سیکرٹری جنرل تیمور رحمٰن، پیپلز پارٹی سندھ کے جمیل سومرو، بلوچ عوامی مومنٹ کے منظور گچکی، لاہور لیفٹ فرنٹ کے ڈاکٹر لال خان، فاروق طارق، ڈاکٹر عمار جان و دیگر؛

وکلا کی جانب سے سینئر وکیل عابد حسن منٹو، پاکستان بار کونسل کے نائب صدر امجد علی شاہ، پاکستان بار کونسل کے ممبران اختر حسین، عابد ساقی اور احسن بھون، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن علی احمد کرد، کامران مرتضیٰ، سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر ایم عقیل، پشاور ہائیکورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی، بابر ستار، سیف الملوک، نائب صدر کراچی بار ایسوسی ایشن کے عابد فیروز، سندھ ہائی کورٹ کے محمد یٰسین آزاد، کراچی بار ایسوسی ایشن کے حیدر خان رضوی اور امیر الدین، بیرسٹر احمر جے خان، سابق صدر کراچی بار ایسوسی ایشن حیدر امام رضوی، پختونخوا سے سروپ، حبیب طاہر، ضیا خان اور سو کے قریب دیگر معروف وکلا نے اس کی توثیق کی ہے۔

جبکہ پاکستانی صحافت کے بڑے ناموں سینئر ایڈیٹر اور کالمسٹ ایم ضیا الدین، سینئر صحافی احمد رشید، مصنف زاہد حسین و کالمسٹ ڈان، ایڈیٹر و اینکر طلعت حسین، سیکرٹری جنرل سافما امتیاز عالم، اینکر حامد میر، عاصمہ شیرازی، افتخار احمد، ابصار عالم، کالمسٹ جنگ عطا الحق قاسمی، تجزیہ کار مظہر عباس، ایڈیٹر آواز خالد فاروقی، پی ایف یو جے کے افضل بٹ، سیکرٹری جنرل اے پی این ای سی خورشید عباسی، ناصر زیدی، ناصر ملک، ایڈیٹر ڈیلی ٹائمز کاظم خان، ایڈیٹر رضا رومی، سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار، سما ٹی وی کے احمد ولید، کراچی پریس کلب فاران خان، لاہور پریس کلب کے نائب صدر ذوالفقار مہتو، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، لاہور اور پشاور کے پریس کلبز کے عہدیداران، ایڈیٹر عوامی آواز ڈاکٹر جبار خٹک، ایڈیٹر و ممبر سی پی این ای محمد عامر و دیگر عہدیداران، سافما کے مستنصر جاوید، جنرل سیکرٹری سافما پاکستان سرمد منظور، ریزیڈنٹ ایڈیٹر دی نیوز محمد صدیق، آج ٹی وی محمد طارق، سیکرٹری جنرل ایم یو جے شفقت بھٹہ، ایچ یو جے کے خالد کھوکھر اور لالہ رحمن، ایس یو جے کے لالہ اسد پٹھان، کراچی یونین آف جنرنلسٹ کے صدر سیّد حسن عباس، صدر اشرف خان، سیکرٹری احمد خان ملک، سیکرٹری جنرل اعجاز جمالی، دی نیوز کی زیب النسا برکی، تجزیہ کار محمل سرفراز، سام کی تنزیلہ مظہر اور مختلف علاقائی صحافی تنظیموں کے عہدیدار شامل ہیں۔

سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے ایچ آر سی پی کے حارث خلیق، طاہر حسین، مونا بیگ، ترقی پسند مصنّفین کے عابد علی عابد، انسانی و خواتین حقوق کی علمبردار سلیمہ ہاشمی، شیما کرمانی، نگہت سعید خان، سیپ کے محمد تحسین اور عرفان مفتی، اور دانشوروں میں ڈاکٹر وسیم، ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر قیصر بنگالی، مسعود خالق، مشتاق صوفی، روبینہ سہگل، قاضی جاوید (سندھ)، اشفاق سلیم مرزا، باچا خان سینٹر کے خادم حسین، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے دیپ سعید اور انیس ہارون، ایچ آر سی پی کی عظمیٰ نورانی، ویرو کے سالام دھاریجو اور میر ذوالفقار علی، عورت فائونڈیشن کے ناظم حاجی، فرحان تنویر، مہناز رحمٰن، سماجی کارکن نغمہ اقتدار، محترمہ جویریہ یونس، اقلیتی حقوق کے علمبردار پیٹر جیکب اور دیگر پچاس دانشور شامل ہیں۔

شعبہ تعلیم سے ڈاکٹر وسیم، ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر سرفراز،ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر ریاض احمد شیخ، مسعود خالق، پنجابی شاعر صوفی مشتاق و دیگر شامل ہیں۔

تجارتی یونینز کے رہنمائوں میں پائلر اور جنرل سیکرٹری ایل این سی کرامت علی اور پیپلز لیبر بیورو کے حبیب الدین جنیدی، جنرل سیکرٹری فشری کوآپریٹیو سوسائٹی کے سعید بلوچ، سیکرٹری جنرل نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن نثار منصور، پی آئی اے سکائی وے یونین کے شیخ مجید و دیگر شامل ہیں۔

(ادارہ ہم سب آن لائن اس اعلان کے مندرجات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اسے ایک جمہوری، مستحکم اور خوشحال پاکستان کی طرف پیش رفت کا روڈ میپ قرار دیتا ہے – مدیر وجاہت مسعود)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).