عوام ٹیکس کیوں دیں؟


انسا ن نے صدیو ں کے سفر کے بعد اپنے کچھ اختیارات ریاست نا می ادارے کے سپرد کر کے حقوق و فرائض کا ایک سو شل کنٹر یکٹ تخلیق کیا ہے جو دنیا کے دیگرمما لک میں کسی قدر بہتر صورت میں اپنے ثمرات عوام تک پہنچا رہا ہے۔ ہر کنٹر یکٹ میں کم از کم دو فریقین ہو نا ضروری ہیں۔ ریاست کے نظم و نسق کے اس معا ہدے میں بھی ضروری فریقین عوام اور حکمران ہیں۔ فریق اول حکمران اور فریق دوم عوام ہیں۔ ہر دو فریقین نے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ہو ادا کر نا ہے اور پھردوسرے سے اس کے فرائض کا تقا ضا کرنا ہوتا ہے۔

حکمران کیوں کہ کسی بھی ریاست کے وسا ئل پر واحد قا بض اور طاقتور فریق ہو تا ہے چنا نچہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ پہل کرے اور اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کرے اور پھر فریق دوم سے اس کے فرائض کا تقا ضا کر ے۔ اور فریق دوم (عوام ) کی فرائض کی بجا آوری میں اس کی مدد کر ے اور کسی قسم کی کو تا ہی پر اس کی تنبیہ کر ے۔

پاکستان میں ریا ستی سو شل کنٹریکٹ نے جو ذمہ داریا ں حکمرانوں کو حق ِ حکمر انی کے سا تھ تفویض کیں تھیں ان میں امن و امان، قا نون کی برابری، کاروبا ر کی آزادی، اظہار ِ رائے کی آزادی، تعلیم کی فراہمی، صحت کی فراہمی اولین ہیں۔ دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ سا تھ جب حکمران طبقہ عوام کے ان بنیا دی حقوق کا انتظا م کر دیتا ہے تو اب فریق دوم کی با ری آ تی ہے کہ وہ حکمرانوں کی مدد کر ے اور ان تما م فرائض کی بجا آوری کے لیے اپنی محنت اور کما ئی سے کچھ حصہ حکومت کو بطور فیس ادا کر ے۔ جسے آج کل کی اصطلاح میں ٹیکس کہتے ہیں۔

اب میر ے دیس کا دستور نرالا دیکھیں کہ فریق اول اپنی کسی بھی قسم کی ذمہ دار ی ادا کر نے سے قاصر ہے بلکہ نا کام ہے لیکن فریق دوم کو صرف اپنی طا قت سے ڈرا کر اس سے ٹیکس وصول کر نا چا ہتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ٹیکس اور جگا ٹیکس کے درمیان فرق کر نا مشکل ہو جا تا ہے۔ ایک مثا ل سے بات واضح کر نے کی کو شش کر تا ہو ں کہ آپ کسی دکان دار کے پاس سرخ مرچ لینے جا ئیں اور وہ آپ کو مرچو ں کے نام پر برادہ تھما دے اور آپ اس دکان دار سے کہیں کہ بھیا یہ تو مرچیں نہیں تو میں پیسے کیوں دو ں؟

تو بد معاش اور پہلوان دکاندار غصہ میں گا ہک کی پٹائی کر دے یا یو ں سمجھیں آپ بیگم کے مجبو ر کر نے پر جگ تھا مے گلی کی نکڑ پر ”نکے“ کی دکان سے دودھ لینے جا ئیں اور ”نکا“ آپ کو دودھ کی بجا ئے پانی کا جگ بھر کر دے اور رقم کا تقا ضا شروع کر دے اور آپ اس پر احتجا ج کر یں کہ جناب یہ تو پانی ہے دودھ نہیں۔ اس تکرار کی آواز سن کر ”نکے کا ابا“ دکان کے پیچھے سے برآمد ہو اور آپ کی ٹھکا ئی کر دے تو کیسا محسوس ہو گا؟

کچھ ایسی ہی کیفیت سے مجھ سمیت پاکستان کے عوام جو کہ فریق دوم ہیں گزر رہے ہیں۔ فریق اول کا حال یہ ہے کہ اب نا تو ”نکا“ مان رہا ہے اور نا ہی ”نکے کا ابا“ کہ یہ پانی ہے دودھ نہیں۔ دھمکیا ں اور پٹائی الگ سے کی جا رہی ہے۔

حکمران جن کو آج کل حب الوطنی صرف ٹیکس کو لیکشن میں نظر آ تی ہے۔ ان سے دست بستہ درخواست ہے کہ آخر عام آدمی ٹیکس کیوں دے؟ جبکہ وہ اپنی اور اپنے خاندان والوں کی بیما ری میں دوا دارو کا خود ذمہ دار ہے، عزیز اقرباء میں کوئی بیمار ہو جا ئے تو اس کے پرائیویٹ علاج معالجہ کے لیے اپنے تمام وسائل اور برسوں کی جمع پو نجی ختم کروا بیٹھتا ہے۔

ہم ٹیکس کیوں دیں؟ جبکہ اپنے بچوں کی معیا ری اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بھی ہم نے اپنی جیب سے ادا کر نے ہیں۔

ہم ٹیکس کیوں دیں؟ اگر اپنے ساتھ ہو نے والی نا انصا نی کے انصا ف کے لیے ہم تھا نے میں بیٹھے افراد کو فیس کے نام پر رشوت پیشں کرتے ہیں پھر وکلاء کو حق سچ کا سا تھ دینے کے لیے بھاری معا وضہ ادا کرتے ہیں اور ججز سے انصاف لینے کے لیے ان کے ساتھ عمرے کر نے اور وڈیو ز بنا نا پڑ تی ہیں۔

اگر حکومت میرے بچوں کو معیا ری تعلیم نہیں دیتی، علا ج معالجے کی سہو لیات اور انصاف فراہم نہیں کر تی۔ تو ہم ٹیکس کیوں دوں؟

آخر ریاست ٹیکس کیوں لینا چا ہتی ہے؟ بقول فریق ِ اول اسے ملک چلا نے کے لیے پیسو ں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی ما ہر معا شیا ت اس بات پر بھی تو روشنی ڈا لے کہ حکو مت اپنی کون سی ذمہ داری پورا کر رہی ہے۔ اور یہ کبھی بھی نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان کے بچے ملکِ پاکستان کے سرکا ری اداروں میں تعلیم حا صل کر نا باعث ِ شرمندگی سمجھتے ہیں تو اگر ایسا ہے توہما رے بچوں کی تعلیم کے نام پر میری جیب پر ڈا کہ کیوں مارنا چا ہتے ہیں؟

اگر ریاست عوام کے علا ج معالجے کے نام پر مجھ سے ٹیکس وصول کر نا چا ہتی ہے تو سچ بتا ئیے ان حکمرانوں اور ان کے خا ندانوں کے افراد پاکستان میں علاج کروانا با عث شرمند گی کیوں سمجھتے ہیں؟ پاکستان میں ایسے کتنے ہسپتال ہیں جہاں علاج کرواتے ہوئے اس بات کا ڈھرکا نا لگا رہے کہ کوئی ان ٹرینڈ سٹاف مجھے غلط انجیکشن نا لگا دے۔ ڈا کٹروں کی بے اعتنا ئی اور رویہ ایک الگ تکلیف دہ داستان ہے۔ لیکن وہ بھی شا ید مجبور ہیں کہ حکمران ان کو منا سب سہولیات اور عزت دینے میں نا کام ہے۔

ہم ٹیکس کیوں دیں؟ اگر ریاست سوشل کنٹر یکٹ پر عمل پیرا ہی نہیں تو فریق ِ دوم کو صرف دھو نس دھا ند لی سے نہیں دبا یا جا سکتا۔ ریاست ِ مدینہ کا خواب دیکھا نے والوں سے دست بستہ عر ض ہے کہ ریاست ِ مدینہ کے سر براہ نے اپنا ما ل اور گھر کا سا مان سب سے پہلے پیش کیا تھا۔ اور پھر عوام سے قربانی چاہی تھی۔ کوئی پیچھے نہیں ر ہتا ہر کوئی اپنے گھر کا سا ما ن لے کر با ہر آ جا تا ہے اگر سر براہ اپنا مال سب سے پہلے پیش کر ے۔

یہا ں حکمران اشرافیہ تو میرے نام پر لی گئی عالمی خیرات پر سینکڑو ں احباب کے سا تھ عمر ے فر ما ئے، ہیلی کا پٹروں پر سیریں کرے، نئی نئی وادیوں کی سیر سپا ٹے سے لطف اندوز ہو، سینکڑوں احباب کے ساتھ غیر ملکی دورے فرمائے لیکن میری اچھی تعلیم، صحت اور امن امان کی فکر ہی نا کر ے تو جناب لکھ رکھیے جب تک یہ رویہ تبد یل نہیں ہو گا عوام ٹیکس کو ”جگا“ ٹیکس ہی سمجھتے رہیں گے۔ آپ جب تک وزیراعظم ہاؤس یو نیورسٹی میں تبدیل نہیں کرتے، گورنر ہاؤسز کو لائبریریوں یا ہسپتالوں میں نہیں بد لتے، تھانہ اور کچہری کا ما حول تبد یل نہیں کرتے، تب تک عوام سے بھی اُمید نا رکھیں کہ وہ صرف ”نکے“ اور ”نکے کا ابا“ کے ڈر سے پانی کو دودھ سمجھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).