حضرات شادیاں کیجئے، گناہ نہ کیجئے


”مردوں میں ساری خوبیاں ہوتی ہوں گی ماسوائے عورت سے وفاداری کے“۔ روف کلاسرا کے منتخب کالموں پر مشتمل کتاب ”آخر کیوں“ پڑھتے ہوئے یہ جملے میری توجہ کا مرکز بن گئے۔ اپنی ایک یونانی دوست کا تذکرہ کرتے ہیں جو مردوں کی بیوفائی کا رونا روتے ہوئے کہتی ہے کہ مردوں کے لئے ”ایک عورت پر اکتفا کرنا ان کی فطرت میں نہیں ہے“۔

بات تو یہ بہت حد تک درست ہے۔ اگر ایسا معاملہ نہ ہوتا تو اسلام جو انسانی فطرت کے قریب ترین مذہب جانا جاتا ہے اس کی تعلیمات اور احکامات میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہوگز نہ ہوتی۔

ہمارا معاشرہ جس پستی کا شکار پے وہاں اس موضوع پہ تحقیق کی جائے تو دلخراش حقائق سامنے آئیں گے۔ کس طرح مرد اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے نامحرم عورتوں کے پیچھے پھرتا ہے۔ اسی طرح بعض عورتیں اس گھناونے کاروبار میں ملوث ہیں کہ مردوں کی خواہشات کو معاوضہ لے پورا کیا جائے۔

کسی زمانے میں محبت انسان کو مجبور کرتی تھی کہ اپنے محبوب کا قرب حاصل کرے۔ اس قربت کی خواہش کے پیچھے پر خلوص پیار محبت کے جذبات کی تسکین تھی۔ اسلام نے محبت کے لئے نکاح کو بہترین حل بنا کر پیش کیا۔ عورت تو ساری زندگی بھی ایک مرد کے ساتھ گزار سکتی ہے لیکن بعید نہیں کہ مرد بار بار محبت میں گرفتار ہوجائے۔ محبت نہ سہی اسے کوئی عورت پسند آئے اور پھر اس کے حواس پر چھا جائے۔ اس کے قرب کی خواہش میں وہ غیر شرعی امور کی جانب بڑھ جائے تو یہ ناصرف اس مرد کا نقصان ہے بلکہ اس کی بیوی اور بچوں کا بھی نقصان ہے۔

دوسری جانب جس نامحرم عورت کی طرف بڑھا اس کا بھی نقصان ہے کیونکہ اس عورت کا حق ہے کہ اسے باعزت طریقے سے چاہا جائے۔ عورت بہت حساس مخلوق ہے اس کا دل نرم پڑ جاتا ہے جب مرد اپنی بے بسی کا رونا روئے۔ وہ اپنے محبوب کو تڑپتا نہیں دیکھ سکتی اور بعض اوقات اپنی عفت اس لیے قربان کردیتی ہے کہ اس کا محبوب مرد مضطرب ہے اور اسے مجبور کرتا ہے۔

جدید دور میں عورت کو ایکسپوژر ملا تو بہت سا روایتی پن جاتا رہا اور آج عورت کی آزادی کے نام پر بہت عجیب و غریب تقاضے سامنے آنے لگے۔ ایک طرف تو عورت واقعی مظلوم ہے اور اس کے ساتھ ظلم ہوتا ہے دوسری طرف عورتوں نے ظلم کی خود ساختہ تعریف گھڑ لی جس میں سب سے قبیح تقاضا مردوں کی طرح آزادی کا حصول ہے جبکہ نظام زندگی کو چلانے کے لئے مرد و زن کے جو کردار اسلام نے متعین کیے وہ بہت متوازن ہیں۔ چادر اور چار دیواری کی اہمیت ان سے پوچھئے جنہیں کسی مجبوری کے تحت گھر سے نکلنا پڑا اور وہ معاشرے میں پھیلی بدصورتی کا حصہ نہ بنیں۔ عورت کا حق ہے کہ اسے تعلیم و ہنر کے ساتھ میل جول کی بھی آزادی ہو۔ حد کا تعین اسلام نے دے دیا اس لیے جن گھرانوں میں اسلامی تعلیمات کو بنیاد بنایا جاتا ہے وہاں خود ساختہ ظلم اور حد سے تجاوز کرنے والی آزادی کے مسائل نہیں ہوتے اور اگر ہوں تو ان کی شدت کم ہوتی ہے۔

اس آزادی اور مرد سے غیر شرعی میلاپ کا نقصان خود عورت کو ہے۔ جب مرد بنا نکاح عورت سے لذت حاصل کرنے لگے تو وہ خود غرض بن جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ جب عورت بنا نان نفقہ اور سماجی بندھن میری خواہش کی تکمیل کررہی تو بھلا کیا ضرورت شادی کے اخراجات اٹھائے۔ آخرت کی فکر تو کسی کو بھی نہیں۔ بعض نے اس جبلی کمزوری کو مرد کی مجبوری قرار دے کر خود ہی فتوے صادر کردیے کے جیسے موت کے خوف سے حرام کھانا جائز ہوجائے یونہی مرد کی اس بیقرار طبیعت کی تسکین کے لئے حرام کاری بھی جائز قرار پائی۔

اس بات پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے کہ بعض جعلی عالموں نے بھی اپنی شہرت کو دوام بخشنے کی خاطر ایسی من گھڑت بے بنیاد تشریحات کرکے ایسے مردوں کو تھپکی دی کہ یہ مجبوری ہے اور کہتے ہیں اللہ بڑا رحیم ہے یہ گناہ بھی معاف ہوجائے گا۔ ایسا کہنے والے شیطان کے بزنس پارٹنرز ہیں اور اس کی جہنم کا ایندھن ان مردوں کے ساتھ ان سے منسلک عورتوں کو بھی بنا رہے ہیں۔ چونکہ جہنم دیکھی نہیں اس لیے اس کا خوف ان کی خواہش کو دبانے میں ناکام رہا۔

طلاق کے بڑھتے رحجان کو دیکھئے۔ ضروری نہیں کہ مرد محض اس لیے بھی دوسری شادی کی خواہش رکھتا ہے کہ اسے رنگ برنگی عورتیں چاہیں بلکہ بعض اوقات پہلی بیوی سے ذہنی ہم آہنگی بھی نہیں رہتی ایسی صورت میں لڑائی جھگڑے گھرانے کو برباد کردیتے ہیں۔

کبھی عورت بھی مرد سے بیزار ہوتی ہے لیکن معاشرہ اس کو اس جبر سے نکلنے نہیں دیتا۔ ہمارے معاشرے میں کسی عورت کا ایک مرد سے طلاق لے کر دوسرے مرد سے شادی کرنے کو ایسا عظیم گناہ جانا جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں زنا جیسا بڑا گناہ ہیچ نظر آتا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کریں تو اس کی مثال ایک حدیث مبارکہ ہے جب ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نان نفقہ اور سلوک کا پوچھا تھا اس عورت نے کہا کہ ایسی بھی بات نہیں۔ بس اس مرد کی شکل پسند نہیں اس لیے اس سے علیحدگی چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کی اپنے شوہر سے علیحدگی فرما دی۔ پتا چلا کہ جب عورت کے دل میں مرد سے بیزاری یا نفرت جنم لے تو اسے مجبور کرکے اس گھر میں رکھنا اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہے اور معاشرتی برائیوں کا موجب بھی ہے۔ عورت بھی اپنے لئے پناہ تلاش کرے گی اور جب معاشرہ اسے یہ حق نہیں دے گا کہ وہ ناپسندیدہ شوہر سے طلاق لے کر کسی مناسب مرد سے نکاح کر لے تو وہ کیا کر یگی؟ یقینا زنا کا رستہ کھل جائے گا اور اس کا وبال ساری سوسائٹی سارے افراد کے سر ہوگا جو اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ طبیعت پر جبر کرکے اسی شوہر کے ساتھ رہے جسے وہ ناپسند کرتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2