حقیقی ریاست مدینہ


جب سے ریاست مدینہ کا تذکرہ نئے پاکستان میں شروع ہوا اک بے چینی سی رہی کہ حقیقی ریاست مدینہ کیسی تھی۔ اس بے چینی کو لئے میں اپنے دوستوں سے رابطے کرتا رہا جو اس حوالے سے علم رکھتے تھے ان سے حقیقی ریاست مدینہ کا تصور سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ کہیں تو تھوڑی بہت معلومات مل پائی تو کہیں سے معذرت مقدر بنی۔ آخرکار خود ہی حقیقی ریاست مدینہ کے بارے میں تحقیقات کرنے لگا۔ ممکن ہے میری تحقیق کے ذرائع ناقص ہوں کیونکہ میں عربی زبان سے واقفیت نہیں رکھتا۔

اور یہ بھی ممکن ہے میری تحریر میں تاریخ کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں بھی ذکر ہوجائیں جن کے متعلق مستند حوالے نہ ہوں۔ کیونکہ ہماری تحقیق کا مرکز گوگل ہے اور گوگل پر جہاں مستند مواد ہوتا ہے وہیں غیر مستند کی بھی کثرت ہے۔ اگر کہیں تاریخی حوالہ درست نہ ہو یا کسی حدیث کے مستند ہونے میں ابہام ہوجائے تو میری اصلاح فرما دیجیئے گا۔

اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ میں ایک عرصہ سے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے حوالے سے باتیں سن سن کر بالکل تھک چکا ہوں۔ دوسری طرف عمران خان ہے جس کو عوام کے جذبات سے کھیلنا بہت خوب آتا ہے۔ کبھی تبدیلی کے نام پر تو کبھی ریاست مدینہ کے نام، پاکستان کے لوگ بھی تو ماشاءاللہ انتہائی نرم دل ہوتے ہیں وہ سیاستدانوں کی چوڑی چپٹی باتوں میں جلدی پھنس جاتے ہیں۔ انسان کو کسی بھی نظام میں بہتری لانے کے لئے پہلے خود کو رول ماڈل بنانا بہت ضروری ہوتا ہے۔

ابھی تک عمران خان کے طرز زندگی کو دیکھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان ریاست مدینہ کا حوالہ دے کر ریاست مدینہ کے تصور کی ہی تضحیک کر رہے ہیں اللہ معاف کرے۔ کیونکہ ریاست مدینہ میں امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ساری رات جاگ کر بیواؤں، یتیموں اور ضرورت مندوں کے گھروں کے باہر پہرا دیا کرتے تھے۔ جبکہ ریاست عمرانیہ میں حاکم وقت کے گھر سے تقریبا 15 منٹ کی مسافت پر ننھی فرشتہ کو اجتماعی زیادتی کے بعد سفاک درندے قتل کر فرار ہو جاتے ہیں مجال ہے کہ عمران خان اپنے شہشناہی محل سے نکل کر ان بے یارومددگار ورثا کو انصاف دلانے کے لئے پہنچے ہوں۔ ریاست مدینہ میں امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پچاس پچاس گاڑیوں کے لاؤ لشکر کے ساتھ سفر کرنے کی بجائے پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ جبکہ ریاست عمرانیہ میں خان صاحب دنیا میں سب سے زیادہ آسان کام تو باتیں کرنا ہے لیکن سب سے مشکل کام ان پر عمل کرنا ہے۔

تحریر کی طوالت سے بچنے کے لئے حقیقی ریاست مدینہ اور امیر المؤمنین کی طرز زندگی آپ قارئین تک پہچانے کی ادنی سی کوشش کروں گا۔ ریاست مدینہ میں عدل و انصاف کا کیسا قانون ہوتا تھا کہ آپ پڑھ کر حیران ہو جائیں گے۔ یہ واقعہ مسجد نبوی کے ساتھ والے گھر کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پرنالہ اکھڑانے سے شروع ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مکان بالکل مسجد نبوی سے جڑا ہوا تھا۔

اور گھر کے پرنالے کا رخ مسجد نبوی کی طرف ہونے کی وجہ سے پانی مسجد نبوی میں گرتا تھا۔ کبھی کبھار پرنالے کا پانی گرنے کی وجہ سے نمازیوں کو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ یہی تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے امیر المؤمنین نے اپنے دور خلافت میں نمازیوں کی سہولت کے لیے پرنالہ اکھڑوا دیا۔ پرنالہ اکھڑانے کے وقت حضرت عباس رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہیں تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جونہی گھر پہنچے تو اسں تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے فوراَ قاضی سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے انصاف کے حصول کے لئے رحوع کیا۔ قاضی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام فرماں جاری کردیا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ مقررہ تاریخ کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مکان پر حاضر ہوگئے۔

حضرت ابن بن کعب رضی اللہ عنہ کھلی کچہری لگائے ہوئے عوام کے مسائل حل کرنے میں مصروف تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو کافی انتظار کرنے کے بعد جب ان کا مقدمہ پیش ہوا تو حضر ت عمر رضی اللہ عنہ قاضی کے سنے بغیر کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن قاضی نے انہیں روک دیا اور کہا کہ مدعی کا حق ہے کہ وہ پہلے دعوی پیش کرے۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرنا شروع کیا!

میرے مکان کا پرنالہ شروع سے ہی مسجد نبوی کی طرف تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی یہی تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آج میری عدم موجودگی میں پرنالہ اکھڑوا دیا۔ میں آپ سے انصاف کا طلب گار ہوں۔ مجھے انصاف فراہم کیا جائے قاضی نے فرمایا بے شک تمہارے ساتھ انصاف ہوگا۔

قاضی نے مدعی کامقدمہ سننے کے بعد امیر المومنین سے سوال کیا کہ آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا قاضی صاحب! اس پرنالے سے بعض اوقات چھینٹوں کی وجہ سے نمازیوں کو بہت تکلیف ہوتی تھی اس لئے نمازیوں کے آرام کی خاطر میں نے پرنالہ اکھڑوا دیا۔ میرے نزدیک میں نے کوئی ناجائز کام نہیں کیا ہے۔ اسی دوران قاضی مدعی کی طرف متوجہ ہوئے کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا قاضی صاحب اصل بات یہ ہے کہ یہ پرنالہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں نصب کروایا تھا لیکن آج امیر المومنین نے اکھڑوا دیا۔

قاضی نے پوچھاکہ آپ اس واقعہ کا کوئی گواہ پیش کرسکتے ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فوراَ باہر گئے اور چند انصار کو ساتھ لائے جنہوں نے گواہی دی کہ واقعی یہ پرنالہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نصب کروایا تھا۔ مقدمے کی گواہی کے ختم ہونے بعد خلیفہ وقت نظریں جھکائے بہت ہی عاجزانہ انداز میں کھڑا تھا۔ یہ وہ حکمران تھا جس سے قیصر و کسری بھی ڈرتے تھے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اللہ کے لیے میرا قصور معاف کردو مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں لگوایا ہے ورنہ میں کبھی بھی اسے نہ اکھڑواتا۔ جو غلطی مجھ سے ہوئی وہ لاعلمی میں ہوئی ہے آپ میرے کندھوں پہ چڑھ کر یہ پرنالہ اپنی جگہ پر لگادیں“

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں انصاف کا تقاضا یہی ہے اور پھر اس کے بعد تمام مدینے والوں نے دیکھا کہ امیرالمومنین لوگوں کو انصاف مہیا کرنے کے لیے دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ پرنالہ نصب کرنے کے لیے ان کے کندھوں پر کھڑے تھے۔ پرنالہ لگانے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ فوراَ نیچے اترے اور فرمایا امیر المومنین میں نے جو کچھ کیا اپنے حق کے لیے کیا۔ کیونکہ یہ انصاف کا نظام صرف فاروق اعظم کے دور میں ہو سکتا ہے۔ ان مراحل کے دوران آپ سے بے ادبی کی معافی مانگتا ہوں۔

انصاف ملنے کے بعد حضرت عباس نے اپنا مکان اللہ کے راستے میں وقف کردیا اور امیر المومنین کو اختیار دیا کہ وہ میرا مکا ن گِرا کر مسجد میں شامل کر لیں تاکہ

نمازیوں کو جگہ کی کمی کا بھی سامنا نہ کرنا پڑے۔

حقیقی ریاست مدینہ تو ایسی تھی جہاں امیر المومنین خود مسجد میں جھاڑو دیتے تھے۔ شہنشاہوں کے محلوں میں سونے کی بجائے درختوں کے نیچے سونا معمول میں ہوتا تھا۔ خان صاحب آپ ویسے یوٹرن لینے کے لئے بہت مشہور ہیں۔ میرے خیال میں آپ ریاست مدینہ بنانے کا بیان واپس لے لیں کیونکہ جب تک آپ مرسڈیز اور شہنشاہوں کے محلوں میں رہنے کو ترک نہیں کریں گے تب تک ریاست مدینہ بنانا ناممکن کام ہو گا اور آپ اس عظیم ریاست کے تصور کو دھندلا کر رہے ہیں جو بہت بڑی غلطی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).