اے آر وائے ون ورلڈ اور کچھ باتیں مایا میم صاحب کی


ایک دِن کسی کام سے اِڈٹنگ رُوم کے سامنے سے گزرا تو انیق احمد نے مجھے آواز دے کے بلا لیا۔ میں اِڈٹنگ رُوم میں گیا تو اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کہنے لگے ’’آغاز‘‘ کا ’پرومو‘ فائنل کر رہا ہوں، دیکھ کے بتاو اس میں کوئی کمی تو نہیں ہے۔ میں نے پرومو دیکھ کے جو سمجھ آیا، اُن سے کَہ دیا کہ یہ کچھ تبدیل کر لیں۔ انھوں نے میری بات کو غور سے سنا۔ جیسا کہ پہلے کَہ چکا ہوں، انیق احمد کہاں کسی کو اتنی اہمیت دیتے تھے، اِڈیٹر نے اس بارے میں کچھ ایسا کہا، کہ آپ تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اس سے پوچھ رہے ہیں؟ تو انیق بھائی نے جواب دیا، ’’بھئی ہمارے استاد جن کا استقبال کھڑے ہو کے کرتے ہوں، ہماری کیا مجال کہ ان کا احترام نہ کریں۔‘‘ میں ممنونیت و حیا سے لال پڑ گیا، کہ انیق بھائی شکیل عادل زادہ کا نام لے کے مجھ سے کتنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔

اے آر وائے میں ہر شعبے کی دوسری شعبے سے مخاصمت اپنی جگہ تھی۔ جن اداروں کا سسٹم مضبوط نہ ہو، سیٹھ کی خوش نودی حاصل کرنا اگلے زینہ چڑھنے کی شرط ہو، ہر کوئی مالک کا چہیتا کہلانا چاہتا ہو، وہاں ایسی سیاست ہونا غیر معمولی بات نہیں۔ گر چہ میرے تمام کولیگز سے تعلقات بہت مثالی تھے، کام میں جی لگتا تھا، لیکن ان چھہ مہینوں میں میں نوکری سے بیزار آ چکا تھا، جہاں ہر کوئی دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہا تھا۔ اس دوران میں ایک خیر خواہ نے کہا، کہ میں چاہوں تو اے آر وائی ڈیجیٹل جو کہ انٹرینمنٹ چینل ہے، میں سوئچ کر جاوں۔ اے آر وائے ون ورلڈ کے سی ای او عارف حسین تھے، جو آج کل ’’ہم ٹی وی‘‘ میں ہیں، ان سے اچھا باس شاید ہی کہیں کوئی ہو۔ وہ اپنی ٹیم کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنی ٹیم کی تن خواہ کبھی لیٹ نہیں ہونے دی۔ جب کہ اے آر وائے ڈِیجیٹل کے ملازمین کی تن خواہ تین تین مہینے لیٹ ہوتی تھی۔ حالاں کہ جب اے آر وائے ڈِیجیٹل نمبر ون چینل تھا، تو بھی ادارے کا یہی وتیرہ رہا، کہ ملازمین کی تن خواہ روک لیتے تھے۔ میرا مسئلہ یہ بھی تھا، کہ وقت پہ تن خواہ نہیں دو گے، تو میرے اندر کے کامریڈ کا کام کرنے کا موڈ ہی نہیں بنے گا۔ اس وجہ سے میں نے اے آر وائے ڈِیجیٹل میں جانے کی دل چسپی ظاہر نہیں کی، اور اچھا ہی کیا۔

اکتوبر نومبر میں اے آر وائے نے ڈاون سائزنگ کی، تو چند کولیگ خدا حافظ کَہ گئے۔ ڈاون سائزنگ میں وی پی کا جانا ٹھیر گیا تھا، اس کے بعد سینیئر پروڈیوسر مایا خان رِند انفوٹینمنٹ ڈِپارٹ منٹ کی ان چارج ہو جاتی۔ مایا کے قریب ہونے کی وجہ سے میں جانتا تھا، کہ اس ساری سیاست میں مایا کہاں غلط ہے، سو مجھے اس سے چڑ ہو گئی۔ میرے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے تھے، لیکن باقیوں کی شامت آئی رہتی تھی۔ میں ایک دو بار دوسروں کے لیے اس سے اُلجھ پڑا، کہ ٹھیک ہے وہ کمپنی کے ملازم ہیں، لیکن ان سے ناروا سلوک ٹھیک نہیں۔ ایسے ہی کسی لمحے میں نہ جانے میں نے کیا سخت کَہ دیا کہ مایا نے مجھے ای میل کر کے تنبیہہ کی آیندہ آپ اپنے سینیئرز سے اس لہجے میں بات نہیں کریں گے۔ میں نے ای میل کا اس سے بھی سخت جواب دیا، کہ میں آپ کا ذاتی ملازم نہیں، ادارے کا ملازم ہوں۔ اس ای میل میں ایس وی پی اور سی ای او کو سی سی میں رکھا۔ دوسرے دن سی ای و عارف حسین نے مجھے اور مایا خان کو مدینہ سٹی مال آفس میں طلب کر لیا۔

مایا اور میں عارف حسین کے سامنے بیٹھے تھے۔ میری اپائنٹ منٹ ڈائریکٹ عارف حسین کی تھی۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ عارف حسین کو مجھ پہ بڑا مان ہے۔ پہلے تو سرزنش کی کہ مایا کی ای میل کا جواب ’’کیپیٹل لیٹر‘‘ میں کیوں دیا۔ انھوں نے مسئلہ پوچھا کیا ہے، مجھے لگا اگر میں نے یہاں وہ سب الزام لگا دیے، جو مجھے محسوس ہوتا تھا، کہ مایا نے غلط کیا ہے، تو اس کی بہت سبکی ہو گی۔ میں نے یہی کہا مجھے پورے اختیار کے ساتھ کام کرنا ہے، ورنہ نہیں، اور مایا میرے اختیار میں مداخلت کرتی ہیں۔ ’’عورت کہانی‘‘ کی مثال دی جس کی میزبان مایا تھی، میرا کہنا تھا پروڈیوسر میں ہوں، مایا کو سیٹ پر اینکر بن کے رہنا چاہیے، سیٹ پر میں کسی کو باس نہیں مانتا۔ بہت سی ایسی باتیں ہوئیں، جن کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں۔ عارف حسین نے آخری سوال کیا، ’’آپ کے خیال میں مایا جس سیٹ پہ بیٹھی ہیں، یہ اُس کی اہل نہیں؟‘‘ میں ایمان داری سے جواب دیتا تو کہتا، ’’بالکل بھی اہل نہیں ہے۔‘‘ میں نے مایا کی صورت دیکھی تو اس پہ ترس آ گیا۔ عارف حسین کو جواب دیا، ’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘

میں مایا کو بچانا بھی چاہتا تھا، اور اپنا دفاع بھی کر رہا تھا، ایک ہی وقت میں یہ دونوں باتیں ممکن نہ تھیں۔ زچ آ کے کہا، ’’سر، میں استعفا دے دیتا ہوں۔‘‘ عارف حسین میری بات سن کے ہنس پڑے اور کہا، استعفا دے کے جہاں بھی جاو گے، وہاں کوئی نہ کوئی مسئلہ تمھارے سامنے ہو گا۔ پھر اس مسئلے سے بچ کے کہاں جاو گے؟ اچھا نہیں بندہ مسئلوں سے بچاو کے لیے خود کشی کر لے؟ خیر یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا، لیکن وہاں سے اُٹھتے میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے استعفا ہی دینا ہے، میرے لیے ان حالات میں، یہاں کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ نومبر 2008 کی آخری تاریخوں میں سے کوئی ایک شام تھی۔

ان سارے قضیوں سے زرا پہلے کی بات ہے، میرے ایک دوست نے ڈراما سیریل بنائی تھی، اے آر وائے ڈِیجیٹل سے پروڈیوسر کا معاہدہ ہو گیا، لیکن سیریل کی کوئی آٹھ دس اقساط کم پڑتی تھیں۔ میں نے اڈٹنگ کے دوران میں اس ڈرامے کی چند اقساط دیکھ رکھی تھیں، تو دوست کو مشورہ دیا کہ کہانی میں کس جگہ پر کیا کِیا جائے کہ اقساط بڑھائی جا سکتی ہیں۔ محاورے کے مصداق جو بولے وہی دروازہ کھولے، مجھ سے کہا گیا کہ سیریل کا وہ حصہ لکھ دوں، میں لکھنا نہیں چاہتا تھا، لیکن حل نکالنا پڑا۔ عارف حسین سے میٹنگ کے بعد اسی رات، یا اگلے روز میں نے گھر بیٹھے آفیشل آئی ڈی سے اپنا استعفا مایا خان کو ای میل کر دیا۔ استعفا دینے کے بعد سب سے پہلے اسی دوست کو آ کے بتایا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے، استعفا بھیج دیا ہے تو اب میری ڈراما سیریل کا وہ حصہ تمھی ڈائریکٹ کرو۔

استعفے سے اگلے روز میں سویا ہوا تھا، کہ انیق بھائی کی فون کال آ گئی۔ ’’تمھیں کسی کی کال آئی ہے؟‘‘
میں نے کہا، کس کی کال آنا تھی انیق بھائی؟ مجھے کسی کی کال نہیں آئی۔ انیق بھائی نے کہا، ’’میں نے سلمان اقبال (مالک) سے بات کر لی ہے، اب تم میرا شو ’’آغاز‘‘ کیا کرو گے۔ کیا تمھیں آفیشلی نہیں بتایا گیا؟‘‘
میں نے دھیمے سے کہا، ’’انیق بھائی میں استعفا دے آیا ہوں۔ چھوڑ دیا ہے، اے آر وائے۔‘‘

(جاری)

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran