قبائلی اضلاع میں صوبائی انتخابات: ’وقت آگیا ہے کہ قبائلی عوام کو سہولیاتِ زندگی گھر کی دہلیز پر ملیں‘


قبائلی اضلاع

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور مقامی افراد نے اس عمل سے کافی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔

20 جولائی کو ہونے والے ان انتخابات کو سابق قبائلی علاقوں کے قومی دھارے میں شمولیت کا باقاعدہ آغاز قرار دیا جارہا ہے۔

سات قبائلی اضلاع اور ایک ایف آر ریجن سے کل 16 جنرل نشستوں پر انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت میں سینکڑوں امیدوار مدِمقابل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

قبائلی اضلاع کا ماضی اور مستقبل

کورٹ کچہری سے قبائیلیوں کی توقعات؟

سابقہ فاٹا میں قبیلے کی مانیں یا قانون کی؟

ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پہلی مرتبہ قبائلی عوام صوبائی سطح پر حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

اس سے پہلے قبائلی عوام صرف قومی اسمبلی کے انتخابات میں حق رائے دہی کا استعمال کرتے رہے ہیں جبکہ ان کے منتخب نمائندوں کو علاقے کے مخصوص حالات کے باعث زیادہ اختیارات بھی حاصل نہیں ہوتے تھے۔

قبائلی اضلاع

ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پہلی مرتبہ قبائلی عوام صوبائی سطح پر حق رائے دہی استعمال کریں گے

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ انتخابات ماضی میں ہونے والے انتخابات سے کس حد تک مختلف ہونگے اور اس سے عوام نے کیا توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ اس سلسلے میں بی بی سی نے ضلع خیبر کے رہائشیوں سے سے گفتگو کی۔

جمشید خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی اور صرف مخصوص اشرافیہ یا مراعات یافتہ طبقے کو نمائندگی کا حق حاصل تھا۔

ان کے مطابق پاکستان بننے سے لے کر 80 کے عشرے تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس دوران صرف ان لوگوں کو علاقے کی نمائندگی دی جاتی تھی جو بااثر یا مالی طور پر مستحکم ہوتے تھے کیونکہ اس زمانے میں صرف قبائلی ملک یا سرداروں کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا جبکہ عام عوام حق رائے دہی سے محروم تھے۔

قبائلی اضلاع

جمشید خان کے بقول حالیہ الیکشن میں پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع میں گہما گہمی نظر آرہی ہے جس میں نوجوان طبقہ سب سے آگے ہے۔

جمشید خان نے بتایا کہ اس زمانے میں کوئی باقاعدہ الیکشن مہم بھی نہیں ہوتی تھی، پوری ایجنسی کے چند سو ووٹ ہوا کرتے تھے جس میں امیدوار رات کو حجروں میں جاکر کھلے عام ووٹ خرید لیتے تھے اور جو زیادہ بولی لگاتا وہی صبح جیت جاتا تھا۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ حالیہ الیکشن میں پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع میں گہما گہمی نظر آرہی ہے جس میں نوجوان طبقہ سب سے آگے ہے۔

محمد رؤف آفریدی کے خیال میں 20 جولائی کو ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے مختلف ہیں کیونکہ یہ الیکشن ایسے وقت ہورہا ہے جب فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکا ہے اور اصلاحاتی عمل تیزی سے جاری ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پہلے بھی اسمبلیوں میں ہمارے نمائندے تھے لیکن ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں تھا بلکہ انھیں قانون سازی کے لیے صدر کے آرڈنینس کا محتاج ہونا پڑتا تھا۔ لیکن صوبائی اسمبلی کا حصہ بننے کے بعد ان کے نمائندوں کے پاس پہلی مرتبہ قانون سازی کا اختیار مل جائے گا۔ امید ہے کہ اس سے وہ اپنے علاقے کے لیے موثر انداز میں آواز اٹھاسکیں گے۔‘

قبائلی علاقے

20 جولائی کو ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے بھی مختلف ہیں کیونکہ یہ الیکشن ایسے وقت ہورہا ہے جب فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکا ہے اور اصلاحاتی عمل تیزی سے جاری ہے

قبائلی علاقے برسوں سے پسماندگی کا شکار رہے ہیں اور یہاں بنیادی ضرویات کابھی شدید فقدان پایا جاتا ہے لیکن حالیہ الیکشن میں پہلی مرتبہ دیکھا جارہا ہے کہ امیدوار علاقے کے مسائل پر بات کررہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔

رؤف خان کے مطابق ’اب وقت آگیا ہے کہ قبائلی عوام کو بھی زندگی کی وہ سہولیات گھروں کے دہلیز پر ملیں جس کے لیے وہ دہائیوں سے بڑے بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں۔‘

پہلے ان کے پاس قومی اسمبلی کےصرف دو حلقے تھے لیکن اب ان کے پاس صوبائی اسمبلی کے تین اضافی حلقے بھی آگئے ہیں۔ جس طرح نمائندگی میں اضافہ ہوا ہے اسی مناسبت سے علاقے کے لیے ترقیاتی کام بھی زیادہ ہونگے۔

رؤف نے بتایا کہ ’سابق قبائلی علاقوں میں نوجوانوں کو کوئی خاص نمائندگی نہیں تھی لیکن حالیہ مہم کے دوران نوجوان طبقہ خاصا متحرک دکھائی دیتا ہے۔ اس مرتبہ نہ صرف نوجوان امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے بلکہ الیکشن مہم بھی بیشتر نوجوانوں ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘

فاٹا کا انضمام تو ہوچکا ہے لیکن اسے منطقی انجام تک پہنچانے کےلیے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے اور یہ صرف اسی صورت میں بہتر انداز میں ممکن ہے جب قبائلی عوام خود اس حکومت کا حصہ ہوں جہاں صوبے سے متعلق فیصلے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32539 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp