عمران خان کے نئے پاکستان میں الزامات کا سونامی


پچھلے کچھ ہفتوں سے الزامات در الزامات در الزامات کا متناہی سلسلہ ملکی سیاست میں ایک بھیانک سونامی کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، اس طوفانِ بدتمیزی، بدتہذیبی، بداخلاقی اور بے حیائی کے نتائج بھی ویسے ہی بھیانک رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ عمران خان صاحب اور ان کے رفقاء کار کی جانب سے پیدا کی گئی اس سونامی نے ملکی سیاست کو انتہائی رقیق قسم کے الزامات، گالم گلوچ، ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے تک محدود کر دیا ہے، سیاسی اخلاقیات، شرم و حیاء، انسانی اخلاقی قدروں کو شرمسار کر دیا ہے۔

ملکی سیاست کے اگر صرف پچھلے ایک ماہ کا جائزہ لیں تو ہمیں چور ڈاکو، لوٹ گئے کھا گئے، منی لانڈرنگ کرکے اربوں روپے کی جائدادیں بنالیں، این آر او نہیں دوں گا جیسے پچھلے پانچ سالوں سے چلنے والی کیسٹ کا ایک ہی سائیڈ بجتا سنائی دیگا۔ خان صاحب اپنے گیارہ ماہ میں ماسوائے گالم گلوچ، الزامات لگانے اور چور ڈاکو کی گردان لگانے، نہیں چھوڑوں گا کے دعوؤں کے اپنے سؤ روزہ ایجنڈہ کے ایک بھی حرف پہ عمل کرتے نظر نہیں آئے۔

آج پاکستان کی عوام ملکی تاریخ کی سب سے بدترین مہنگائی اور افراط زر کی سونامی میں گھری نظر آتی ہیں جبکہ حکمران رعایا کی حالتِ زار کی بہتری کی کوششیں کرنے کے بجائے اپنے جذبۂ انتقام کو تسکین پہنچانے اور مخالفین کو بدترین انتقام کا نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ادارے جنہیں میرٹ کے تحت چلانے اقربا پروری سے پاک کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے، کرپٹ نا اہل غیرمنتخب لوگوں کی فوج ظفر موج بھرتی کرکے تباہی کی گہری کھائی میں دھکیلے جا رہے ہیں، مختصر کابینہ رکھنے کے دعویداروں نے پچاس پچاس ترجمانوں کی فوج خزانے پہ لاد کر اس کی کمر ہی توڑ کے رکھ دی ہے۔

اس وقت مرکزی حکومت کی کابینہ کا حجم ساٹھ کے قریب ہے جبکہ چن چن کے چاچے مامے دوست احباب، انویسٹمنٹ کرنے والوں کو مختلف طور طریقوں سے نوازنے کی نئی تاریخ رقم کر دی گئی ہے۔ خان صاحب کو اب تک کے گیارہ ماہ میں اگر کسی چیز کی پرواہ نظر نہیں آئی تو وہ ہیں پاکستان کے عوام، جنہوں نے جتنے بھی جیسے بھی سہی تبدیلی کو ووٹ اس وجہ سے دیا کہ وہ اپنی اور ملکی مشکلات کا حل چاہتے تھے، وہ کرپشن اقربا پروری کے بڑھتے طوفان کے آگے بند باندھنے کے خواہشمند تھے، وہ جنوبی پنجاب صوبے کے حامی تھے، وہ واقعی ایک صحت مند مثبت تبدیلی چاہتے تھے مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ تبدیلی اتنی بھیانک شکل کی ہوگی کہ انہیں اس بھیانک تبدیلی کا جن پورے کا پورا ہی نگلنے کے کام میں لگ جائے گا۔

ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام، معاشرے میں تیزی سے پروان چڑھتے عدم برداشت، سماجی برائیوں اور قباحتوں کے خلاف مؤثر حکمت عملی بنانا اور عام آدمی کو بہتر زندگی کی فراہمی ریاست کی اولین آئینی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے، مگر جب ریاست ہی ملک میں عدم برداشت گالی گلوچ، غیراخلاقی، غیرانسانی اور غیرسیاسی رویوں کو پروان چڑھانے میں پیش پیش ہو تو رعایا اپنا دکھڑا کس کے پاس لے کر جائے۔ پچھلے دنوں حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں اور عوام دشمن اقدامات کے خلاف ملک بھر کے تاجروں نے ملک گیر ہڑتال کر کے حکومت کو واضح پیغام دیا کہ یہ وہ تبدیلی نہیں ہے جسے انہوں نے ووٹ دیا تھا۔

1977 کے بعد ملک کی کاروباری برادری کی اپیل پر ملک گیر شٹر ڈاؤن ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے ریاست مدینہ کی طرز پہ حکمرانی کے دعویدار وزیراعظم عمران خان صاحب کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے، مگر انہیں اس ہڑتال سے کوئی فرق اس لئے نہیں پڑتا کہ انہیں عوام نے تو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ دیے ہی نہیں، نہ ہی وہ عوامی مینڈیٹ کے تحت برسرِ اقتدار آئے ہیں، وہ جن کا مینڈیٹ لے کر مسند اقتدار ہوئے ہیں ان کی نہ صرف خواہشات اور ترجیحات کی برابر تکمیل ہو رہی ہے بلکہ وہ جس طرح کی سیاسی افراتفری، سیاسی عدم استحکام چاہتے ہیں وہ خان صاحب پاکستان میں صرف گیارہ ماہ میں ہی پیدا کر چکے ہیں، اس لحاظ سے وہ ایک کامیاب حکمران ثابت ہوئے ہیں جو اپنے آقاؤں کی خوشنودی اور منشا کے مطابق بڑی کامیابی سے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

خان صاحب جس دن سے اقتدار میں آئے ہیں صرف اور صرف اپنے مخالفین کو زچ کرنے، انہیں جیلوں میں ڈالنے اور ان کے خلاف اپنی نفرت اور انتقام کی آگ کو تسکین پہنچانے کے ایجنڈے پہ عمل پیرا رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں اپوزیشن کا کام ہی حکومت کی مخالفت کرنا ہے، مگر یہ پہلی حکومت ہے جو اپوزیشن کا کام خود کر رہی ہے۔ خان صاحب اور ان کے رفقاء کار اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو کرپٹ اور منی لانڈرر ثابت کرنے کی کوشش میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ بات اب سیاسی مخالفت سے ذاتیات تک پہنچ چکی ہے، اور طوفانِ نفرت و انتقام کہاں اور کب جاکے تھمے گا اس کا اندازہ لگانا فی الحال بہت مشکل ہے۔

خان صاحب نے کرپٹ عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی اور اقدامات کا وعدہ قوم سے کیا تھا مگر اب تک کے گیارہ ماہ عمل اپنے تمامتر وعدوں اور دعووں کے بالکل الٹ کیا ہے، ان کے درجنوں غیرمنتخب معاونین و معتقدین جو اس وقت صرف شریف خاندان اور زرداری خاندان کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہوئے ہیں، وہ جوق در جوق ان کو گھیرا کیے ہوئے ہیں، وہ کرپشن، منی لانڈرنگ اور فراڈ میں ملوث ٹولے انہیں بالکل نظر نہیں آ رہے ہیں، خان صاحب کی حکومت انتقام و نفرت کی آگ میں اس قدر اپنے حواس کھو بیٹھی ہے کہ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور سابق صدر آصف علی زرداری و ممنون حسین، سابق وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے ادوار میں ان کی سیکیورٹی اور سرکاری دوروں پہ ہونے والے اخراجات کو بھی احتساب کی زد میں لانے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں، اور اعلان کیا گیا ہے کہ یہ پیسے ان سے واپس لئے جائیں گے، جبکہ اپنے آقاؤں کے ہم رکاب جرنیل پرویز مشرف ان کے دور کے وزراء اعظم و وزراء اعلیٰ کو مستثنیٰ قرار دے کر ثابت کر دیا ہے کہ خان صاحب کا ایجنڈا صرف اور صرف اپنے ذاتی انتقام کی تسکین اور اپنے سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانے کی خواہشات پہ مبنی ہے۔

خان صاحب اور ان کی حکومت عوام کی طرزِ زندگی کو بہتر کرنے، مہنگائی کے طوفان کو روکنے، روپے کی زمین بوس ہوتی قدر کو مستحکم کرنے کے بجائے اپنی تمامتر توانائیاں صرف اور صرف شریف اور زرداری خاندان کو پابندِ سلاسل کرنے میں صٓرف کر رہی ہے۔ پاکستانی قوم یقینن کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے، وہ اداروں کی مضبوطی اور ان کی غیر جانبداری کی خواہاں ہے، وہ ملک میں میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر روزگار کی فراہمی چاہتی ہے، وہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کی خواہشمند ہے، وہ ملک میں قانون و انصاف کی منصفانہ اور جلد فراہمی کو یقینی دیکھنا چاہتی ہے، وہ تمام اداروں کو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے دیکھنا چاہتی ہے، وہ ملک میں آزادی گفتار و اظہار پہ کسی طور قدغنیں نہیں چاہتی، وہ اختلاف راء کا احترام چاہتی ہے، وہ ملک میں سیاسی، معاشی، سماجی استحکام و بہتری چاہتی ہے اور ان سب ہی وجوہات کی بنا پر پاکستانی قوم نے تبدیلی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا مگر انہیں کیا پتا تھا کہ جس نئے پاکستان اور جس تبدیلی کے حق میں وہ اظہارِ حقِ رائے دہی استعمال کر رہے ہیں وہ اتنی بھیانک اور ڈراؤنی شکل اختیار کر لے گی جس کا انہوں نے کبھی خواب بھی نہ سوچا ہوگا۔

عمران خان صاحب الزامات اور چور ڈاکو کی صدائیں لگانا چھوڑ کر اب بھی اگر ایمانداری اور سچائی سے خود کو ملنے والے یا دلوائے جانے والے ووٹ کا حق ادا کرنا چاہیں تو ان کے پاس ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے کافی وقت موجود ہے، لیکن ان کے طرزِ حکمرانی ان کے اپنے رویوں، اپنے تکبر و رعونت اور اردگرد موجود بدعنوانوں، کرپٹ خانہ بدوشوں اور سرمایہ کاری کرنے والے ہجوم کی موجودگی میں شاید یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے اور پاکستانی عوام آئندہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے ہی نہ توبہ تائب ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).