فوج کے سربراہوں کے توسیع لینے کی تاریخ اور جنرل باجوہ


کسی بھی ادارے کا سربراہ باپ کی طرح ہوتا ہے، جنرل باجوہ کا درجہ فوج میں ایک شفیق باپ سا ہے انھیں جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ واقعی شفقت کرنے والے انسان ہیں یہ بات ریکارڈ پر ہے اس کا عملی مظاہرہ انھوں نے فیض آباد پر مولوی خادم رضوی کے دھرنے کے موقع پر یہ کہہ کر کیا کہ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں ان کے خلاف کسی قسم کا آپریشن نہیں کریں گے۔ بھلا جو شخص اتنا خیال رکھنے والا ہو وہ کیسے اپنی مدت ملازمت میں توسیع لے کر 25 جونیر جرنیلوں کی حق تلفی کرے گا۔

پاکستان کی عسکری تاریخ کے اوراق سے گرد جھاڑیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تین جرنیلوں نے خود کو اپنے دستخطوں سے توسیع دی۔ دو جرنیلوں کو سویلین حکومت کی طرف سے توسیع لینے کا کہا گیا جنرل وحید کاکڑ نے شکریہ کے ساتھ یہ پیش کش مسترد کر دی اور جنرل کیانی نے اسے قبول کر لیا۔ دو جرنیلوں کو وقت سے پہلے استعفی لے کر گھر بھیج دیا گیا ان میں جنرل گل حسن سے بھٹو نے اور جنرل جہانگیر کرامت سے نواز شریف نے استعفیٰ لیا۔

جنرل ایوب خان کا کمانڈر انچیف بننا ایک حادثہ تھا جنرل گریسی کے بعد سینیارٹی کے اعتبار سے جنرل افتخار خان کو بری فوج کا پہلا مقامی سربراہ بننا تھا مگر وہ 13 دسمبر 1949 ء کو انگلستان جاتے ہوائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔

جنرل گریسی ریٹائرڈ ہوئے تو اگلے دن ایوب خان کو فورسٹار عہدے پر ترقی دے کر بری فوج کا سربراہ بنا دیا گیا حالانکہ وہ سنیارٹی کے اعتبار سے دسویں نمبر پر تھے۔

جنرل ایوب خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کسی جنگ میں کوئی فتح حاصل نہیں کی تھی بلکہ سویلین حکومت فتح کر کے فیلڈ مارشل بنے تھے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کے والد راجہ حیدر خان کے والد نے انھیں کاغذی فیلڈ مارشل کا خطاب دیا تھا۔ 1969 ء میں ایوب خان کی صدرات سے فراغت کے بعد برطانوی ہائی کمشن نے برطانوی سیکرٹری خارجہ کو جو نوٹ بھیجا اس کے مطابق ایوب خان عسکری حکمت عملی کے حساب سے اوسط درجے کے افسر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ روزمرہ گفتگو میں وہ اپنی سابقہ فوجی زندگی کا ذکر تک نہ کرتے مبادا ان کا عسکری علم آشکار نہ ہو جائے۔

ایوب خان پہلے کمانڈر انچیف تھے جو اپنی مدت ملازمت کو خود اپنے دستخطوں سے توسیع دیتے رہے۔

اپنی مدت ملازمت میں اپنے دستخطوں سے توسیع دینے والے دوسرے جرنیل ضیاء الحق تھے۔ زلفی بھٹو کے مصنف اسٹینلے وولپرٹ کے مطابق جنرل ٹکا خان کی سبکدوشی کے بعد بھٹو کو ایک وفادار اور اپنے کام سے کام رکھنے والے جنرل کی تلاش تھی، جس کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ ہو کہ وہ کوئی الٹی سیدھی حرکت کر سکتا ہو۔

بھٹو کی تلاش جاری رہی اور بالاآخر اُن کی نظر ترچھی مونچھوں والے، آنکھوں میں سرمہ اور گیلے بالوں کی مانگ نکالنے والے ضیاء الحق پر جا کر ٹھہر گئی۔ بھٹو نے سات جرنیلوں کو سپر سیڈ کر کے ضیاء الحق کے ہاتھ میں ملاکا کین کی طاقتور چھڑی تھما دی۔

الطاف حسین قریشی اپنی کتاب ”ملاقاتیں کیا کیا“ میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کا کہنا تھا کہ ”میں جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں فوجی حکومت ایک طرح کا ناگزیر مرحلہ ہے، اسے زندگی کا معمول نہیں بنایا جا سکتا، ہم اقتدار پر قابض رہنے کے لیے نہیں اقتدار منتقل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ عام انتخابات انشاءاللہ اٹھارہ اکتوبر کو ضرور منعقد ہوں گے خدا اور پوری قوم کے ساتھ میں نے عہد کیا ہوا ہے اور اسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں بصیرت اور قوت عطا فرمائے اور ہر قدم پر ہماری رہنمائی کرتا رہے“

پھر انھیں ایسی بصیرت ملی کہ گیارہ سال تک ملاکا کین کی چھڑی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ جمہور کی چمڑی ادھیڑتی رہی۔ فضائی حادثے میں انھوں نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی تب قوم کی چمڑی کو تھوڑی راحت ملی۔

1996 ء جنرل آصف نواز کی وفات کے بعد جنرل وحید کاکڑ سپہ سالار بنے۔ جنرل کاکڑ کے بارے میں تاثر یہ تھا کہ وہ خالص پیشہ ور فوجی افسر ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں جنرل کاکڑ کو مدت عہدہ میں توسیع کی پیش کش کی مگر انھوں نے شکریہ کے ساتھ یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ میں جونیرز کی حق تلفی نہیں کرنا چاہتا۔

جنرل گل حسن کے بعد جنرل جہانگیر کرامت دوسرے آرمی چیف تھے جن سے استعفیٰ لیا گیا۔ انہی کے دور میں ہندوستان کے جوہری دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے جوابی دھماکے کیے۔ معاملات ٹھیک چل رہے تھے کہ اکتوبر 1998 ء میں جہانگیر کرامت نے نیول وار کالج میں خطاب کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ ریاستی ڈھانچے کے استحکام کے لیے ترکی کی طرز پر نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام میں کوئی مضائقہ نہیں، نواز حکومت سمجھی کہ جنرل کے ارادے ٹھیک نہیں ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔

تیسرے جنرل پرویز مشرف تھے جو خود کو توسیع پر توسیع دیتے رہے، اس نیک کام میں اُن کے ساتھ ابن الوقت سیاستدان بھی شامل تھے جو جنرل کو دس سال تک وردی میں دیکھنے کے متمنی تھے۔ ضیاء نے عدلیہ کو موم کی ناک بنا کے رکھا مگر مشرف نے عدلیہ کی ناک پر ہی ہاتھ ڈال دیا جس کی وجہ سے ان کے ستارے گردش میں آ گئے اور انھیں گھر جانا پڑا۔

جنرل کیانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خاموش رہنے والے جرنیل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف نے جب مارچ 2007 ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ایوان صدر طلب کیا تو آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر جنرل کیانی پوری گفتگو کے دوران خاموش رہے اور خاموش رہتے ہوئے اپنا کام کر گئے۔ ان کے کریڈیٹ پر بہت ساری کامیابیاں بھی ہیں۔ مگر اُن کی ساری کامیابیاں اس وقت گہنا گئی جب انھوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع لی۔ جنرل کاکڑ نے انھیں توسیع لینے سے منع کر دیا تھا۔ جنرل کیانی جے سی او کا بیٹا تھا۔ توسیع لینے پر فوج کے ساتھ ساتھ پرویز کیانی کا نام اور خاندان بھی متاثر ہوا۔

جنرل راحیل شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے توسیع لینے کی پوری کوشش کی اسلام آباد کی شاہراؤں پر ”جانے کی باتیں جانے دو“، ”ابھی دل نہیں بھرا“ کے بینر آویزاں کیے گئے۔ نواز حکومت نے جنرل راحیل شریف کی مدت میں توسیع دینے سے انکار کر دیا۔ بادل نخواستہ جنرل راحیل کو ملاکا کین کی طاقتور چھڑی جنرل باجوہ کے حوالے کرنا پڑی۔ لیگی رہنماؤں کا خیال ہے کہ نواز شریف آج جو سزا بھگت رہے ہیں یہ توسیع نہ دینے کا شاخسانہ ہے۔

اب ایک بار پھر جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی باتیں ہو رہی ہیں۔ جنرل باجوہ پیشہ ور افسر ہیں۔ انھوں نے ماضی میں کئی بار اپنی تقریروں میں اس کا تذکرہ کیا کہ ادارے مضبوط ہونے چاہیے، شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں۔ فوج بحثیت ادارہ منظم ادارہ ہے یہاں شخصیات کے آنے جانے سے پالیسوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ملاکا کین کی چھڑی جس کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ چلتی رہتی ہے۔ امید ہے جنرل باجوہ جنرل وحید کاکڑ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی سے توسیع لینے کے حوالے سے ضرور گفت و شنید کریں گے۔ بہرحال حتمی فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے نہیں جنرل باجوہ نے کرنا ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui