میڑک کا نتیجہ ماضی اور حال


میٹرک کے امتحان میں اچھے نمبر لے لو پھر آگے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا او بھائی تعلیم ہی میٹرک تک ہے۔ آگے تو بالکل آسان ہے۔ نہ پڑھو پھر بھی پاس ہوجاتا ہے۔ یہ فقرہ اکثر یایا بشیر پھپوماموں چچا کہتے تھے۔ تھک ہارکے ہم نے میڑک کا امتحان دے دیا تک خیال آیا زندگی میں کٹھن مراحل آتے اور گزر جاتے ہیں لڑکپن میں سب سے مشکل مرحلہ امتحانات کا ہوتا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کے نتیجے کے دن میں انتظار ہفتہ بھر اسی انتظار میں دل کی دھڑکن غائب رہتی تھی۔ کہ کیا بنے گا۔

چچا جان کا رعب دبدبا ابو سے زیادہ تھا۔ کیونکہ پچھلی صدی میں کالج تک کا سفر کرچکے تھے۔ ان سے اکثر ڈر ہی لگا رہتا تھا۔ اخبار کی خبرسناتے ہوئے مخاطب کرتے او بھائی رزلٹ میں ایک ہفتہ ہے۔ آج کی اخبار میں لکھا تھا۔ تب گلا خشک اور صرف جی پہ اکتفا کردیا کرتے اس مشکل مرحلے میں کلاس کے سب سے جگری یار ہی سہارا دیتے ہیں ان کے الفاظ ہی حوصلہ بڑھاتے او بھائی دیکھا جائے گا ٹینشن کس بات کی۔ ابھی ہفتہ آم کھاؤ موجیں کرو۔

امتحان میں جو گاڑ کے آئے وہ سارے پرچے آنکھوں کے سامنے جھوم رہے تھے۔ کرتوت پتہ ہونے کے باوجود امید باقی رہتی ہے۔ ہمارے دور تعلیم میں پاس ہونے والے طلبہ و طالبات کو تمغہ خاندان دیا جاتا تھا۔ نمبروں کی دوڑ تھوڑی کم ہوتی تھی۔ نتیجے کا دن کیا یوم حساب ہی لگتا تھا۔ گزٹ کی بڑی سی کتاب چچا کے سگے دوست کی دکان پہ موجود ہوتا تھا۔ ایک لمبی قطار میں ٹانگیں کانپتے ہوئے گزٹ کی طرف گامزن اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی اب دل کی دھڑکن بھی کانوں سے سنائی دے رہی تھی۔

جب پاس پہنچا تو عینک کے سیشے سے اوپر دیکھتے ہوئے ہاں بھی رول لمبر کیا ہے۔ تیرا۔ وہ اکثر نمبر کو لمبر ہی کہاں کرتے تھے۔ پنجاب میں اکثر اسی طرح کی غلطیاں ہماری باقاعدہ زبان کا حصہ بن چکی ہے۔ ہم نے بھی لمبر کی بجائے نمبر بتایا مگر دھیمے انداز میں میرے ساتھ میرا جگری یار موجود تھا۔ اس کی باری میرے فورا بعد تھی۔ چچا جان کے دوست نے پرچی تھماتے ہوئے بولا اوئے منڈیا چچا اودے نو آکھی مٹھیاں لے کے آوے پاس ہوگیا اے۔ میری تو مانوں خوشی سے آنکھ سے آنسو آنے لگے تھے۔ مگرکچھ دیر بعد لگا بھائی یہ فلم نہیں مگر میں بہت خوش تھا۔ 79.46 فیصد نمبر لے کر نمایاں پوزیشن حاصل کرچکا تھا۔ مجھے لگا پہلی پوزیشن اپنی ہے۔ اور دوست کو مکمل طور پر بھول چکا تھا

تب تک بھی آیا اور ایک کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے چل آ ناشتہ کرتے ہیں میں نے پوچھا کیا ہوا تیرا کہتا ہونا کیا ہے۔ وہی دو سپلیاں آگئی چل ناشتہ کریں بھوک لگی ہے۔ میں اس کے اعتماد پہ سشدر رہ گیا کمال کا اعتماد پایا ہے۔ بیغیرتی کی انتہا ہے۔ مجھے کہنے لگا بھائی نان ٹھونس کے جاؤ گا گھر والوں سے پریشان ہونے کا ڈرامہ کرکے کھانا نہ کھاؤ گا امی اباں کی مار سے بچا لے گی بیچارے نے صبح سے کھانا تک نہیں کھایا میں نے سوچا کمال دماغ پایا ہے۔

اس سال لمبی قطار کہیں نظر نہ آئی نیٹ کیفے پہ دس بارہ سٹوڈنٹس کھڑے تھے۔ جو ہاتھ میں پرنٹ لئے کھڑے تھے۔ اور نمبر کم آنے پر شکوہ کناں تھے۔ تجسس ہوا تو پوچھنے پہ بتایا کہ 91 فیصد نمبر آئے ہیں اس لئے پریشان ہوں۔ حیرانی سے پوچھا کس جماعت کا نیتجہ ہے۔ تو پتہ چلا میڑک۔ میں حیران ہوتے ہوئے اپنا دور یارکرنے لگا جب نمبروں کی ریس نہیں تھی۔ تعلیم کے ساتھ تربیت اور جسمانی صحت کا خیال بھی رکھا جاتا تھا۔

گزشتہ ہفتے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن نے میٹرک کے پوزیشن ہولڈرز کا اعلان کر دیابورڈ کی ویب سائٹ پہ گیا تو وہاں پوزیشن ہولڈر کے نام اور نمبر لکھے ہوئے تھے۔ سال 2019 میں تمام درجہ بندیوں میں 1092 نمبر لے کر دانش اطہر نے فرسٹ پوزیشن اپنے نام کر لی دوسری پوزیشن حاصل کرنے والوں میں تین طلبہ شامل تھے۔ 1090 نمبر کے ساتھ انوشہ ذکریہ، سید حسن اور محمد عفان دوسرے نمبر پر رہے سائنس گروپ لڑکوں میں دانش اطہر 1092 نمبر لے کر پہلے نمبر پر رہے سید حسن اور محمد عفان 1090 نمبر لے کر دوسرے نمبر پر رہے سائنس گروپ لڑکیوں میں انوشہ ذکریہ 1090 نمبر لے کر پہلے نمبر پر رہی صبا اقبال اور سائرہ حیات 1089 نمبر لے کر دوسرے نمبر پر رہے ہیومینٹیز گروپ لڑکوں میں عثمان افتخار 988 نمبر لے کر پہلے نمبر پر رہا مبشر لیاقت 982 نمبر لے کر دوسرے نمبر پر رہا ہیومینٹیز گروپ لڑکیوں میں سحرش افضال 1042 نمبر لے کر پہلے نمبر پر رہی ملائکہ 1034 نمبر لے کر دوسرے نمبر پر رہی یا سمین فوزیہ 1028 نمبر لے کر تیسرے نمبر پر رہی

شوق لگن اور محنت سے کامیابی کی راہیں نکلتی ہیں سستی کاہلی اور لاپروائی ناکامی کا راستہ دکھاتی ہیں یہ حقیقت ہے۔ کہ طالب علم کی قابلیت میڑک میں لئے گئے نمبروں سے عیاں ہوتی ہے۔ میڑک کے نمبر ہی تعلیمی میدان کا تعین کرنے اور کالج میں داخلے کے لئے ضروری ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ کی جدید ترین سہولیات کھیل خاندان دوست احباب اور ملکی و بیرون ملکی حالات کے لئے بھی وقت نکالنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور اخلاقی ذمہ داری کی آگہی وقت کی ضرورت ہے۔ تعلیم نوجوانوں کی زندگی میں سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت، خوراک، خاندان بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں اور خاندانی نظام میں بھی ہر طالب علم کی شرکت بہت ضروری ہے۔ تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کی کلاس کے بھی تمام سبق سیکھ سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).